ایک منکرین حق کے تین سوال اور اس کا حلقہ باگوش اسلام ہونا

Posted on at


ویسے تو قبولیت اسلام کے حوالے سے اسلامی کتب اور تاریخ اسلام  سے بہت سے دلچسپ واقعات ملتے ہیں لیکن بعض جہگوں پر مبلغ اسلام و دین و اشاعت کو ایسے منطقی سوالوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان سوالوں کے جوابات دے کر ان منکرین حق کو اسلام کے دائرے میں لانا، ان بزرگوں کی حاضر جوابی ، معملہ فہمی، ذہانت جیسی خوبیوں کی داد رسی نہ کرنا ناانصافی ہو گا  ۔ اس میں شک و شبہ نہیں جس بندے کو اللہ کی طرف سے ہدایت ملنی ہو اسے کسی مخصوص طریقے کار کے عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔



واقعہ اس طرح وقوع پذیر ہوا کہ ایک دفعہ ایک کافر ایک مسلمان بزرگ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم میرے تین سوالوں کا جواب دے دو تو میں دائرہ اسلام میں داخل ہو جاوں گا۔


سوال نمبر ایک،  جب ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے تو تم لوگ انسان کو ذمہ دار کیوں ٹھراتے ہو؟


سوال نمبر دو، جب شیطان آگ کا بنا ہوا ہے تو دوزخ کی آگ اس پر کیسے اثر کرے کر سکتی ہے؟


سوال نمبر تین، جب تمھیں خدا نظر نہیں آتا تو اسے کیوں مانتے ہو؟


مسلمابزرگ نے اس سوالوں کے جواب میں پاس پڑا مٹی کا ڈھیلا اٹھا کر کافر کو بہت زور سے مارا۔ کافر کا اس بات پر غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا اور سیدھا قاضی وقت کے پاس جا کر مقدمہ دائر کر دیا۔  اس وقت اسلام میں عدل و انصاف کا چرچہ تھا اورناحق کو سزا ملتی تھا ، قاضی نے فورًا اس بزرگ مسلمان کو ہدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا اور ان سے پوچھا اس کافر کے سوالوں کے جواب میں اسے مٹی کا ڈھیلا کیوں مارا۔


بزرگ نے کہا اس کا پہلا سوال تھا کہ جب ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار انسان کو کیوں ٹھہراتے ہو؟


اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ڈھیلا اسے اللہ کی مرضی سے لگا ہے تو اس کا ذمہ دار مجھے کیوں ٹھراتے ہو؟


دوسرا سوال یہ تھا کہ شیطان آگ کا بنا ہوا ہے تو اس پر دوزخ کی آگ کیسے اثر کرے گی؟


تو انسان بھی مٹی کا بنا ہوا ہے پھر کیسے مٹی کے ڈھیلے نے اس پر کیسے اثر کیا؟


اس کا تیسرا سوال یہ تھا کہ خدا تمھیں نظر نہیں آتا تو اسے کیوں مانتے ہو؟


اس کا جواب یہ ہے کہ جب اسے درد نظر نہیں آیا تو یہ اسے کیوں محسوس کرتا ہے۔



کافر اس بزرگ کی پردلیل باتیں سن کر قبولیت اسلام کے دائرے میں آ گیا اوراس واقعہ کو تاریخ کے اوراق میں ایک سبق اموز باب کا اضافہ کر دیا۔



160