تعلیم نسواں اور عورت کا مقام

Posted on at


علم ایک نور ہے اور اکتساب نور مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی حق ہے۔ انھیں اخلاقی طور پر یا قانونی طور پر اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ عورتوں کو علم اور تعلیم سے محروم رکھنا جہالت اور نادانی کی بات ہے۔ قرون مظلمہ میں تو ممکن ہے عورت کو ان پڑھ اور جاہل رکھنے میں کوئی مصلحت ہو،  مگر دور جدید کے متمدن اور مہذب معاشرے میں تعلیم نسواں سے انکار حماقت اور اور کم عقلی ہے۔رسول پاکؐ کے ارشاد کے مطابق "تعیلم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے"۔ عقلی نقطہ نظر سے دیکھیں تو بیوی خاوند کی نصف بہتر ہے۔ مرد اور عورت کی زندگی کے دو پہیے ہیں۔ تعیلم انسان کو تہذیب و شرافت اور اخلاق سکھاتی اور اسے ایک بہتر انسان بناتی ہے اگر عورت کو ہم تعلیم سے محروم رکھیں گے تو گاڑی کا ایک پہیہ بھدا، نا تراشیدہ ہو گا جس کے نتیجے میں گاڑی مناسب رفتار کے ساتھ اور صحیح انداز میں نہ چل سکے گی۔

بعض حلقوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اسلام عورتوں کی تعلیم کا مخالف ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو ایک بلند مقام اور مرتبہ بخشا ہے۔ اسلام نے عورت کو وہ حقوق عطا کیے ہیں، جن سے وہ صدیوں سے محروم تھی۔ قدیم روایات کی رو سے آدم و حوا کے جنت سے اخراج کا سارا قصور  حوا پر عائد کیا جاتا ہے۔ قرآن پاک نے اس الزام تراشی کی تردید کی اور واضع کیا کہ اس معاملے صرف حوا قصور وار نہیں تھی بلکہ شیطان نے دونوں ( آدم و حوا) کو ورغلایا تھا۔ دور جاہلیت میں عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ اسلام نے اس غیر انسانی اور انتہائی ظالمانہ رسم کا خاتمہ کیا۔حضورؐ نے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ جو والدین اپنی تین بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش صحیح مخلوط پر کریں گے وہ جنت کے مستحق ہوں گے۔ غرض اسلام نے عورت کو ایک قابل رشک رتبہ عطا کیا۔ لہٰذا اسلام نہ صرف تعلیم نسواں کی اجازت دیتا ہے بلکہ وہ اسے ضروری بھی سمجھتا ہے۔ البتہ اسلام نہ صرف تعلیم نسواں کی اجازت دیتا ہے بلکہ وہ اسے ضروری بھی سمجھتا ہے۔ البتہ جس طرح اسلامنے جس طرح عورت کو بہت سے حقوق عطا کیے ہیں، اسی طرح معاشرے کی بہتری کے لیے اس پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کی ہیں، کچھ پابندیاں بھی لگائی ہیں اور اس کی سرگرمیوں کو ایک دائرہ کار میں محدود کیا ہے۔اسلام عورت کی فطرت کے پیش نظر خود اسی کی بہتری کےلیے ایک خاص نوعیت کی تعلیم نسواں کا قائل ہے جو عورتوں کو ان کی مخصوص ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے سلسلے میں مدد دے سکے۔اکبر الہ آبادی نے کہا تھا؎

تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر

خاتون خانہ ہو وہ صبا کی پری نہ ہو

قدرت نے عورت کے جسم و جان کی تخلیق اس کی ہے کہ وہ زندگی کے گوناگوں مسائل ک سامنا مردوں کی طرح نہیں کر سکتی ۔جسمانی اعتبار سے ٓوہ مرد سے کمزور ہے۔اس لیےضروری ہے کہ اس پر کام کا بوجھ بھہ مرد کے مقابلےمیں کم ڈالا جائے اور اس کی ذمہ داریاں مرد کے مقابلے میں محدود اور اس کی حیثیت کے مطابق ہوں یہی وجہ ہے کہااسلام مے اس کا اصل دائرہ کار ، گھر کی چار دیواری مقرر کیا ہے۔ مغربی تہذیب نے عورت کو گھر سے نکال کر ہوٹلوں، بازاروں، دکانوں اور کلبوں میں کا کھڑا کیا ہے۔

بے پردگی اور  اور عریانی کوترقی کی معراج قرار دیا گیا۔ عورتوں کو مردوں کے دوش بدوش کام کے گمراہ کن نعرے دے کر عورت کو بیوقوف بنایا گیا۔ جس کے نتیجے میں مغرب کا خاندانی نظام تباہ ہوا اور وہاں کا معاشرہ پچیدہ معاشرتی مسائل کی الجھنوں میں پھنس کر رہ گیا ۔ وہاں فحاشی اور بدکاری اور اس کے نتیجے میں ناجائز بچوں کی پیدائش عروج پر ہے۔ طلاقوں کی کثرت ہے۔ ہر شخص مادہ پرستی، نفس پرستی اور خود غرضی میں ڈوبا ہوا ہے۔ عورت کو اس کے اصل مقام سے ہٹانے کے نتیجے میں اس پر دوہرا بوجھ آن پڑا ہے۔ ایک عورت کی حیثیت سے اپنی فطری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے دفتروں، ہوٹلوں  اور دکانوں میں مردوں کے کام بھی سرانجام دینے پڑتےہیں۔ کسی بھی عقل مند اور باشعور معاشرے کے لیے یہ صورت حال قابل قبول نہیں۔اہل مغرب اپنی جس بیانک غلطی کا خمیازہ بھگت رہےہیں، اگر ہم بھی ان کی نقالی میں عورت سے وہی سلوک کریں گے تو ہم سے زیادہ احمق کوئی نہ ہو گا  ۔ اس اعتبار سے عورتوں کو مردوں کی سی تعلیم دینا خطرنا ک ہے۔

 



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160