محمد شریف الادریسی ۔ حصہ اول

Posted on at


ابو عبداللہ محمد ابن محمد ابن عبداللہ ابن ادریس جو الادریسی کے نام سے مشہور تھے۔ بارہویں صدی کے عظیم مسلم جغرافیہ دان اور نقشہ نگار تھے۔ ان کا تعلق مالقہ (اندلس) کے حمودی خاندان (۵۸۔۱۰۱۶ء) سے تھا جو مراکش کے ادریسی خاندان (۷۸۹ء ۹۸۵ء) کی ایک شاخ تھا۔ ادریسی خاندان کے بانی ادریس اول نے آٹھویں صدی عیسوی کے اواخر میں سبتہ (مراکش) میں ایک خود مختار سلطنت قائم کی تھی۔



الادریسی ۱۰۹۹ء میں سبتہ میں پیدا ہوئے۔ محمد الادریسی کا سلسلہ نسب حضرت امام حسنؒ تک پہنچتا ہے۔ انھوں نے اپنا لقب الحسنی اختیار کیا۔


الادریسی کی پیدائش کے وقت مراکش ، الجزائر، مورتیانیہ اور اندلس (سپین) پر مشہور فاتح یوسف بن تاشفین حکمران تھے۔ الادریسی نے ابتدائی تعلیم اندلس کے علمی مرکز قرطبہ میں حاصل کی۔ ان کی ابتدائی زندگی کا بیش تر حصہ شمالی افریقا ، شام ، فلسطین اور سپین میں سیروسیاحت کرتے ہوئے گزرا۔ سولہ برس کی عمر میں انھوں نے ان طولیہ یا ایشیائے کوچک (ترکی) کا سفر کیا تھا جو ان دنوں بازنطینی رومی سلطنت میں شامل تھا۔ اس سفر کا مقصد افسوس میں اصحاب کہف کا غار کا مشاہدہ کرنا تھا۔ انھوں نے یورپ میں پرتگال ، کوہستان (پیرے نیز)، فرانس کے اوقیانوسی ساحل اور انگلستان میں جوروگ تک سیاحت کی جو ان دنوں یارک کہلاتا ہے۔ اس دوران میں وہ الجزائر کے شہر قسنطینہ میں پڑھاتے بھی رہے۔


بحیرۂ روم میں اٹلی کا جزیرہ سسلی تیونس (افریقا) کے شمال مشرق میں واقع ہے، عرب اسے صقلیہ کہتے تھے۔ ۱۰۲۷ء سے ۱۰۹۱ء تک سسلی (صقلیہ) پر عرب مسلمانوں کی حکومت رہی اور پھر اٹلی کے نارمن مسیحی اس پر قابص ہوگئے۔ نارمن بادشاہ راجر ثانی نے الادریسی کے علم و فضل کی شہرت سنی تو اس نے ۱۱۳۸ء میں انھیں اپنے دارالحکومت پلرمو(سسلی)آنے کی دعوت دی۔ الادریسی ۱۸ سال پلرمو (سسلی) میں مقیم رہے۔ اسی لیئے انھیں بعض اوقات الصلقی بھی کہا جاتا ہے۔


راجر ثانی علم دوست حکمران تھا۔ اس نے دنیا کے مختلف علاقوں کی جانب ایلچی روانہ کیے تاکہ وہ ان علاقوں کے بارے میں تازہ ترین معلومات لے کر آئیں۔ جب معلومات جمع ہو گئیں تو اس نے محمد الادریسی کو حکم دیا کہ چاندی کے ایک بڑے قُرص پر پوری دنیا کا ایک بڑا سا نقشہ بنائیں۔ جنانچہ الادریسی نے نقرئی قُرص پر ایک ایسا ابھرواں نقشہ بنا یا جس پر ساتوں اقالیم، دریا، سمندر، پہاڑ خلیجیں، جزیرے، قصبات اور شہر دکھائے گئے تھے۔ اس بڑے قُرص کے ایک جانب آسمان کا نقشہ تھا جس میں سیارے، ستارے اور آسمانی برج یعنی ستاروں کے جھرمٹ دکھائے گئے تھے اور دوسری جانب آباد زمین کو سات اقالیم میں اور ہر اقالیم کو گیارہ حصوں میں تقسیم کر کے خشکی (براعظم)، سمندر اور ممالک دکھائے گئے تھے۔


یہ گویا دنیا کا پہلا فلکی وارضی گلوب تھا۔ بد قسمتی سے یہ گلوب ۱۱۶۱ء میں بعض نارمن سرداروں کی لوٹ مار میں غائب ہو گیا



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160