(واپڈا کو فوج کے حوالے کرنے کا اراداہ۔۔۔۔۔۔۔۔﴿حصہ دوم

Posted on at


واپڈا کے ١۹۹۸ کے نومنتخب چیہرمین ًجنرل ذولفقار علی خانً نے چارج سنبھالتے ہی واپڈا کے اعلٰی عہدیداروں کا اجلاس طلب کیا جس میں ادارے میں رچی بسی کرپشن کے خاتمے کیلیے پلان تیار کیا۔ اس موقع پر واپڈا کے مختلف شعبوں کے انچارج صاحبان نے کارکردگی کی رپورٹیں پیش کیں۔

                      

ذراہع کے مطابق ان رپورٹوں میں اصل حقاہق چھپانے کی کوشش کی گہی تھی اور محض بوگس اعدادوشمار پیش کیے گیے۔اور نہے چیہرمین کو یقن دلایا گیا کہ واپڈا اپنے سارے بگڑے ہوھے معاملات جلد ٹھیک کر لے گا۔

اس کے برعکس جو حقاہق سامنے موجود تھے، ان سے فرار ممکن نہیں جبکہ مالی لحاظ سے واپڈا دن بدن گھمبیر مساہل میں الجھتا جارہا تھا۔ اگر نہے چیہرمین جنرل ذولفقار علی خان واپڈا کے اعلٰی عہدیداروں کی پیش کردہ رپورٹوں کے ساتھ ساتھ ان حقاہق کو بھی مدِنظر رکھا تو انہیں پتا چلتا کہ ًسرکاری اعدادوشمارً اور غیر جانبدارانہ کیے گیے حقاہق میں کتنا فرق ہے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ واپڈا کے اعلٰی حکام میں ماضی میں ان حقاہق اور اعدادوشمار کو خود بھی تسلیم کر چکے تھے۔ اس وقت پاکستان واپڈا کا خسارہ تقریبا ۸۰ ارب روپے ہوچکا تھا۔ اور اس میں دن بدن اضافہ بھی ہو رہا تھا۔

                    

اس سے پانچ سال پہلے تک ۲۰ ارب روپے تک سالانہ منافع دینے والا یہ ادارہ اب ہر روز اپنے خسارے میں اضافہ کر رہا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اعلٰی سطح سے لے کر نچلی سطح تک رچ بس جانے والی بد عنوانی، بدانتظامی اور بے قاعدگی کی روایت تھی۔ جس کو ہر آنے والی حکومت نے مضبوط کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ اربوں روپے منافع دینے والے اس ادارے کا وجود خطرے میں پڑھ گیا تھا اور حکومت کی کوشش کے با وجود نج کاری کے زریعے اس سے اپنی جان نہیں چہڑاسکی۔

              

سیاسی مداخلتوں اور دباو کے باعث اس ادارے کی وصولیوں کی شرح ہمیشہ نچلی سمت میں سفر کرتی رہی ہے۔جب بھی ادارہ کی طرف سے خسارہ کم کرنے کے لیے وصولیوں کا نظام ٹھیک کرنے کی کوشش کی گہی یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے واویلے کے بعد اس کی وصولیوں کی شرح بلند کرنے کی طرف کوہی قدم اٹھایا گیا

تو با اثر سیاستدانوں نے حکمرانوں کی مدد سے ان کی کوششوں کو خاک میں ملا دیا۔ ١۹۹۸میں اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان واپڈا کے ناہندگان ۹ ارب روپیہ دباہے بیٹھے تھے اور ادارے کے پاس اس خطیر رقم کو وصول کرنے کا کوہی طریقہ نہیں کیونکہ ناہندگان اس تباہ حال یدارے سے بہت زیادہ طاقتورہیں۔



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160