دیکھا جائے تو مملکت خدا داد پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے گوناگوں مسایل کا شکار رہا ہے کبھی پانی کا مسلہ تو کبھی لوڈ شیڈنگ کا کبھی دہشت گردی کا تو کبھی خوراک کا ایسے مسایل کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں سر اٹھاتے ہی رہے ہیں اور پاکستان کی عوام کو مشکلات سے دو چار کرتے رہے ہیں.مگر یہ پاکستان کی انتہائی خوش قسمتی ہے کے اس کو ہر دور میں اتنے اچھے حکمران میسر رہے جنہوں نے کبھی ایسے مسلوں کا مستند حل تلاش نہیں کیا ماسواے اپنی جبیں بھرنے کے ایسا ہی ایک تازہ مسلہ ضلع تھر پارکر میں قحط کا مسلہ ہے
تھر پارکر کا نام دو حروف تھر اور پارکر سے مل کر بنا ہے .شروع شروع میں تھر اور پارکر کا نام علیحدہ علیحدہ لیا جاتا تھا مگر اب یہ تھر پارکر ہی کہلاتا ہے.تھر پارکر کا ضلع پاکستان کے صوبہ سندھ کا شمال مشرق میں واقع ہے.یہاں کے تقریبا ٩٠ فی صد آبادی دیہات پر مشتمل ہے.اس کا صدر مقام مٹھی کے نام سے جانا جاتا ہے .یہاں کے مقامی بولی جانے والی زبان دھٹکی کہلاتی ہے . یہ بنیادی طور پر راجھستانی زبان ہے اور ضلع کے بڑے حصّے میں بولی جاتی ہے . تھر پارکر کا بہت بڑا حصّہ صحراے تھر پر مشتمل ہے.یہاں کے لوگوں کا انحصار زیادہ تر بارشوں پر ہے مگر صحرائی علاقہ ہونے کے وجہ سے یہاں بارش کی مقدار کافی کم ہے
پاکستان میں صحراے تھر میں سال ٢٠١٣ کے اواخر اور ٢٠١٤ کے اوائل میں قحط کا مسلہ بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا لیکن عوام کو اس کا ادراک تب ہوا جب بھوک اور بیماری سے تھر میں ١٤١بچوں کی موت واقع ہوئی.تب میڈیا نے شور مچایا.ریلیاں اور ٹاک شوز منعقد کیے گیے مگر کیا یہ ان اموات کا نیملبدل ہو سکتا ہے ؟.یقینا اس کا جواب نفی میں ہے
دکھ کی بات تو یہ ہے کے حکومت نے پھر بھی کوی مناسب قدم نہیں اٹھایا .سندھ کے چیف منسٹر عزت مآب جناب قایم علی شاہ کو ان اموات کے بعد وہاں کے دورہ کا خیال آیا.الیکشن میں بلند بانگ دعوے کرنے والے نواز شریف بات بات پر دھرنا دینے والے عمران خان اور ابھی ابھی سیاست کے میدان میں وارد ہونے والے بے بی بھٹو عرف بلاول بھٹو کسی نے ان اموات اور قحط کے بارے میں کوئی دھرنا دینے یا عملی قدم اٹھانے کے کوشش نہیں کی
ایسے حالات میں کراچی کے بزنس مین ملک ریاض نے تھر کے متاثرین کے لئے ٢٠ کروڑ کا عطیہ دے کرفلاحی پروگرام کی داغ بیل ڈالی یہی نہیں انہوں نے ایک موبائل ہسپتال بھی وہاں بھیجا جو تقریبا ٦ ماہ وہاں رہ ک تھر متاثرین کے مدد کرے گا ان سب کے بعد حکومت کو بھی ہوش آیا اور تھر کے متاثرین کے لئے فنڈز مختص کیے گیے اور وہاں کے صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کیے گئے .مگر سوال تو یہ ہے حکومت کو خواب خرگوش سے جگانے کے لئے کب تک ملک ریاض جسے لوگ پہل کرتے رہیں گے .کیا اس ملک کے لئے حضرت عمر جیسا کوی حکمران میسر نہیں جنہوں نے فرمایا تھا کے اگردجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر جائے تو میں ذمہ دار ھوں .یہاں سینکڑوں اموات ہو گئیں اور ہمارے حکمرانو کو بیرونی دوروں سے فرصت نہیں.شائد ہمیں بھی کسی عمر کا انتظار کرنا ہوگا