خاندانی زندگی اور اس کی اہمیت

Posted on at


ہماری زندگی وحدت کے باوجود اس لحاظ سے کثرت کا رنگ لئے ہوئے ہے۔ اس کے حصّے ہیں۔ مثلا انفرادی زندگی، خاندانی زندگی، شہری زندگی، قومی زندگی، سیاسی زندگی معاشی اور بین الاقوامی زندگی۔ یہ تمام حصّے زندگی کے تقاضے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے جب تک ہم زندگی کے ان تمام دائروں میں ان تقاضوں کو پورا نہ کریں۔ پورے مومن نہیں ہوسکتے ہیں۔ اور نہ کامیاب زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ اسلام چاہتا ہے۔ کہ ان تمام دائروں میں خدا اور رسول اکرمؐ کی بتائی ہوئی باتوں کو مدنظر رکھا جائے۔ خاندان انسانی تمدّن کا سب سے پہلا اور بنیادی دائرہ ہے۔ انسان اس دنیا میں آنکھ کھولتے ہی اپنے اردگرد رشتوں اور تعلقات کا ایک وسیع جال دیکھتا ہے۔ وہ کوئی جنگل کا درخت نہیں ہے۔ جو زمین سے غذا حاصل کرکے یا سورج کی کرنوں کی روشنی اور ہوا کے بل پر زندہ رہ سکے ۔


بلکہ زندگی میں اسے قدم قدم پر دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے پہلے پرورش کے لئے اسے ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر تعاون اور مل جل کر زندگی گزارنے کے لئے زندگی میں قدم قدم پر اسے دوسرے رشتے داروں اور ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر کی زندگی کو خوشگوار بنانے کےلئے میاں بیوی میں محبت و رحمت کے گہرے جذبات کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑے اور بوڑھوں کی زندگی کو بہتر بنانے کےلئے فرماں بردار اولاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاندانی زندگی کا پہلا مقصد نسل انسانی کی بقاء ہے تاکہ دنیا انسان کی جنس سے خالی نہ ہوجائے۔


قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے۔ تمہاری بیویاں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں۔ جیسے چاہو اپنی کھیتی میں آؤ اور اپنے لئے پیش بندی کرو۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں۔ کہ اسلام نے چار وجوہات کی بناء پر اولاد کی پیدائش اور پرورش کی ترغیب دی ہے۔ ۱: اصل خالق اللہ تعالیٰ ہے، والدین صرف اولاد کی پیدائش کا ظاہری سبب ہیں۔ لیکن چونکہ وہ اللہ کے ایک خاص مقصد یعنی بقائے نسل انسانی کا سبب بنتے ہیں۔ لہزاان کا مقام بلند ہے۔ ۲: حضورؐ فرمایا کہ میں اپنی امت کی کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔ اسلئے والدین حضورؐ کے اس فخر کا باعث بنتے اور آپؐ کی محبت حاصل کرتے ہیں۔ ۳: آدمی کے مرجانے کے بعد نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے اور وہ اپنے والد کے حق میں دعائے مغفرت کرتی ہے۔ ۴: اگر اولاد بچپن میں مرجائے تو والدین کی شفاعت کرے گی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالٰیٰ نے فرمایا: اور اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کے درمیان محبت و رحمت پیدا کردی ہے۔



About the author

160