بدعنوانیت اور لاوارثیت

Posted on at


بدعنوانیت اور لاوارثیت



بدعنوانیت جیسی لعنت نے ہمارے معاشرے کے ہر طبقہ اور ہر شعبہ زندگی کو متاثر اور آلودہ کر دیا۔  جب ہم اپنے گھروں سے باہر نکلے تو عموماً ہمیں زیادہ تر لوگوں کے بدعنوانیت کے مطالق تبصرے ملتے ہیں۔ ذیادہ تر لوگ جو اپنے کام اپنے حلقہ کے منتخب ارکان اسمبلیوں سےکروانے جاتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کا کام نہیں ہوتا تو ایسے سنے میں آتا ہے کہ پہلے ہمارے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات اپنے الیکشن کمپین کے دوران ہونے والے اخراجات پورے کرئے گے تب ہمارے کام کریں گے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک عام آدمی جو بازاروں میں کسی کام کے سلسلے میں چلا جاتا ہے اسے ٹریفک پولیس کے اہلکار سرعام بھتہ لیتے نظر آتے ہیں ، گو کہ بدعنوانیت کا ناسور ہر فرد میں رچ بس گیا ہے جو شخص بھی اس کا موقعہ پاتا ہے اسے موقعے کو نہیں گنوانا چاہتا۔ حتی کہ ہمارے مقدسگائیں تک محفوظ نہیں، ایک شخص اگر اچھے چپل بوٹ پہن کر مسجد کو چلا جائے واپسی پر کسی مدرسے کے طالبعلم کے چپل ہی پہنے ہوتے ہیں۔ قصائی کے پاس گوشت بھی ملاوٹ شدہ ہوتا ہے۔  گوشت کے اندر پانی ملا کر گوشت کا وزن بڑھا لینا ایک عام سی بات بن چکی ہے اور ہماری خوراک اور غذائی اجناس جن میں مرچے، ہلدی ، چائے، گھی وغیرہ شامل ہیں ملاوٹ شدہ ہوتی ہے اور مضرصحت بھی اور فوڈ انسپکٹر حضرات کا ماہانہ بھتہ لگا ہوتا ہے اوران زہر بیچھنے والوں سے کوئی پوچھ کوچھ نہیں۔ یہ ساری چیزیں بدعنوانیت کے زمرے میں آتی ہیں۔



 


رشوت خوری جیسی لعنت بھی ہماری معاشرتی اور معاشی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔  اس سے بڑی بدعنوانیت کیا ہو گی ایک سرکاری خالی آسامی کو پر کرنے کے لئے تمام میرٹ کے تقاضے نظر انداز کرکے ، رشوت لے کر اس خالی آسامی کو پر کیا جاتا ہے۔



 


اعلیٰ سطح پر ہمارے وزیر وزاء اور سیکڑری افسران بھی لمبے ہاتھ مارتے ہیں،  بین الاقوامی آٹو کمپنیاں جیسے ٹیوٹا، سوزوکی، نیسان، وغیرہ سے ماہانہ فکس کمیشن وصول کرتے ہیں باقی گاڑی کے نرخ ان کمپنیوں کے اپنے ہوتے ہیں جو چاہیے اس ملک کے شہریوں سے وصول کریں۔ وزارت پٹرولیم نے نئے سی این جی اور پٹرول پمپ  لگانے اور این او سی  کی منظوری کے لئے کروڑوں کی رقم سرمایہ کار سے لیتے ہیں۔



کرپشن نے ہمارے پی آئی اے اور ریلوے کے محکموں کا عشر نشر کر کے چھوڑ دیا ہے۔


فوڈ کا محکمہ بھی کسی سے کم نہیں۔  فوڈ گوداموں کے افسران ، گندم کی کیرج کےٹھیکیداروں سے فوڈ گوداموں میں گندم اتارنےکے بھی ہر بوری کے حساب سے  پیسے لیتےہیں۔



 


اس طرح پٹواری کے محمکے کو دیکھ لے یا کنٹونمٹ کو جو ٹیکس تو وصول کرتے ہیں لیکن کنٹونمنٹ حلقے میں رہنے والے کو کوئی سہولت نہیں دیتے۔  



بدعنوانیت کے سرطان نے ہمارے معاشی ترقی کے سارے دروازے بند کر دئیے ہیں۔ اس دیمک نے ہمارے ہر شعبہ زندگی کو کھوکھلا  کر دیا ہے۔  بدقسمتی سے جو ادارے جن میں نیب، ایف آئی اے کو بدعنوانیت ، رشوت خوری کی روک تھام کے لئے بنائے گئے ہیں ان میں بھی اکثریت اس افسران کی ہے جو اس بیماری کا خود شکار ہیں اور ہماری عدالتیں انصاف دینے سے قاصر۔  ہماری حکومت کو بدعنونیت جیسی معاشرتی لعنت کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی، ورنہ لاورث قوم جلد ہی کسی کے حوالے ہو جاتی ہے یا پھر یکسر ختم۔



160