محمد شریف الادریسی ۔ حصہ دوم

Posted on at


محمد شریف الادریسی نے عالمی جغرافیعے پر ایک عظیم الشان کتاب نزہت المشتاق لکھی۔ اس میں متن کے علاوہ مختلف علاقوں کے ۷۱ نقشے ہیں۔ اس کی تیاری میں الادریسی نے یونانی جغرافیہ دان بطلیموس اور عرب جغرافیہ دانوں المسعودی ، ابن حوقل ، ابن خردازبہ اور الجیانی کی تصانیف سے مدد لی تھی۔


الادریسی کی اٹلس جسے لاطینی میں (ٹابیولہ راجیرینیا) کہا جاتا ہے، ان کی برسوں کی محنت کا نتیجہ تھی۔ یہ جنوری ۱۱۵۴ء میں مکمل ہوئ۔ تین سو برس تک جغرافیہ دان بغیر تبدیلی کے اس کی نقل کرتے رہے کیونکہ بعض خامیوں کے باوجود اس وقت تک یہ دنیا کی مستند ترین اٹلس تھی۔


الادریسی نے یہ اٹلس عربی زبان میں مُرتب کی تھی، چنانچہ نقشوں کی عبارتیں اور علامات بھی عربی میں تھیں۔ اٹلس میں یورشیا یعنی یورپ اور ایشیا کے براعظم پورے دکھائے گئے تھے جبکہ پراعظم افریقا کا صرف شمالی حصہ، سوڈان اور حبشہ وغیرہ ظاہر کیئے گئے تھے۔ تاہم دریائے نیل اور ان جھیلوں کی درست نشان دہی کی گئی تھی جن سے نکل کر یہ شمال کو بہتا ہے۔ اس اٹلس میں جنوب بالائی طرف اور شمال نیچے دکھایا گیا ، لہذا آج کے حساب سے یہ نقشے اُلٹے نظر آتے ہیں۔


الادریسی کے نقشوں سے جہاں ابن بطوطہ، ابن خلدون اور پیری رئیس (ترک) جیسے سیاحوں، مورخین اور مہم جوؤں نے فائدہ اٹھایا، وہیں یورپی جہاز رانوں کرسٹو فر کولمبس اور واسکوڈے گاما نے بھی استفادہ کیا۔


الادریسی نے اپنی اٹلس میں واضع طور پر لکھا تھا کہ زمین کُرے کی طرح گول ہے۔ چنانچہ کولمبس کو اسی اٹلس کے مطالعے سے خیال آیا تھا کہ وہ گول زمین کے گردا گرد مغرب کو بحری سفر کرتے ہوئے مشرق میں ہندوستان پہنچ سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ راستے میں پڑنے والے جذائر اور بر اعظم امریکا کو دریافت کر کے انھی کو ہندوستان اور اس کے جزائر سمجھتا رہا، چنانچہ ان جزائر کو اس نے غرب الہند کا نام دیا اور اس حوالے سے ویسٹ اینڈیز اور امریکا کے سرخی مائل رنگت کے باشندے ریڈ اینڈین یا صرف انڈین کہلانے لگے اور یہ غلط نام آج بھی استعمال ہو رہے ہیں۔


الادریسی کی اٹلس کے دو مسودے آکسفورڈ اور دو پیرس میں محفوظ ہیں۔ آکسفورڈ کا ایک مسودہ جو مصر سے لایا گیا تھا، اس میں پوری دنیا کا ایک نقشہ اور پہلی تین تین اقلیموں کے ۳۳ نقشے شامل ہیں۔ آکسفورڈ کا دوسرا مسودہ شام سے اڑایا گیا جس پر ۱۵۰۰ء کا سن درج ہے۔ اس میں ۳۲۰ صفحات ہیں اور ایک عالمی نقشہ اور ۷۷ جزوی نقشے شامل ہیں۔


سپین کی ال اسکوریال لائبریری میں الادریسی کی اٹلس کا مسودہ ۱۶۷۱ء میں آگ لگنے کے باعث ضائع ہو گیا۔ عربی میں الادریسی کی اٹلس سب سے پہلے ۱۴۹۲ء میں روم سے شائع ہوئی، جس کی بنیاد فلورنس (اٹلی) کی گریڈ ڈوچل لائبریری میں محفوظ نسخہ تھا۔ ۱۶۱۹ء میں اس کا لاطینی ترجمہ پیرس سے شائع ہوا۔ یہ اٹلس اب جرمنی اور عراق میں شائع ہوچکی ہے۔


صقلیہ (سسلی) کے نارمن مسیحی حکمران اگرچہ الادریسی جیسے اہل علم کے سر پرست تھے، مگر تھے وہ کٹر عیسائی، جنھوں نے بتدریج صقلیہ سے مسلمانوں کے آثار مٹادیے اور مسجدیں گرجوں میں تبدیل کردیں۔ ولیم اول کے عہد میں ۱۱۶۱ء میں سسلی میں خون ریز فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ ان کے نتیجے ہی میں الادریسی نے ہجرت کرنے میں بہتری جانی، چنانچہ وہ مراکش چلے آئے۔ ۱۱۶۵ء میں سبتہ میں ان کی وفات ہوئی



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160