طبقہ نسواں کی توقیر اور عورتوں کے حقوق (حصہ دوم

Posted on at


 

اسلام نے پر دے کو عورت کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ ایک جنگ میں رسولؐ کے سامنے قبیلہ طے کی ایک  لڑکی قید ہو کر آئی تھی۔ا س کے پاؤں میں زنجیر تھی اور وہ بے پردہ تھی۔ حضورؐ نے جب اس لڑکی کو دیکھا تواپنی چادر اس پر کے چہرے پر تان دی کیونکہ بیٹی کسی بھی قوم کی ہو قابل عزت ہے۔

؎بیٹیاں پر قوم کی صدق و صفا کے پھول ہیں

ہم نشین مادہ پرویں ہیں حیا کے پھول ہیں

مسلمان خواتین اشد ضرورت کے وقت گھر سے باہر بھی جاتی رہی ہیں۔ جنگ کے میدان میں زخمیوں کی مرہم پٹی بھی کرتی رہی ہیں۔ انھیں پانی پلاتی رہیں ہیں۔ مگر دینی حکم یہی ہے کہ باہر نکلوں گے مگر پردے کے ساتھ ، نگاہوں کی  حیا کو زیور بنائے ہوئے اور سادگی کو اپنائے ہوئے۔سر بازار زیب وزینت کے اظہار و نکھار کی اسلام اجازت نہیں دیتا ۔ کیونکہ ہر تخلیق کرنے والی ذات کا مشہور ہونا ایک فطری بات ہے۔ اسلام نیم عریانی، بے تکلفی اور بے حیائی کے خلاف ہے یعنی اسلام یہ نہیں چاہتا کہ عورت جس سے نور سے خانگی  زندگی کو منور ہونا چاہیے ۔ وہ چراغ محفل بن کر گلیوں کی زینت بن جائے۔

اسلام نے ہر مقام پر عورت کے حق کا تحفظ کیا ہے۔ قرآن کا فرمان ہے " عورتوں کا پردوں پر ویسا حق ہے جیسا مردوں کا عورتوں پر" اور یہ بھی ارشاد ہے کہ  " عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو" اس سے بہتر طبقہ نسواں کا تحفظ نہ کسی مذہب نے کیا ہے اور نہ کسی معاشرے نے۔

حقوق میں مرد اور عورت کی یہ مساوات ہمسری اور ہمرازی مکمل طور پر معاشرتی اور خانگی ہے۔ اوراسی میں زندگی کا حقیقی حسن ہے۔ مرد جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی عورت کے لیے کرے ۔ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کی عزت کے ضامن ہو۔ قرآن نے ایک اور مقام ہر واضع کیا کہ مرد عورتوں کے نگران ہیں۔  گویا عورت صنف نازک ہے۔ اسے نگرانی تحفظ اور سائبان کی ضرورت ہے۔ اور وہ اسے مرد فراہم کرتا ہے۔ مرد عورت کا ایک مشفق ساتھی ہے۔ اسلام نے اسے ہر مقام ہر قوت برداشت کی تلقین کی ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ عورت کو اپنے حسن سلوک سے خوش رکھے۔

جس گھر کی عورت ناسودہ ہو وہ گھر جہنم سے بدتر ہے۔ اور اس گھر میں پلنے والی اولاد کسی بھی لحاظ سے مستقبل کا حسن نہیں بن سکتی ۔ رسول پاکؐ کا تو یہاں تک ارشاد ہے کہ " اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کی بد خلقی پر صبر کرے تو اللہ اس کا اتنا ثواب عطا فرمائے گا  جتنا حٖضرت ایوبؑ کو ان کی مصیبت میں عطا فرمایا تھا"۔ ان تمام ارشادات و احکامات کی تہہ میں یہی بات پوشید ہے کہ مسلم معاشرے کی خانگی زندگی کسی لحاظ سے ناہمواری ، الجھن ، بے اعتمادی اور نا چاکی کا شکار ہوں۔ اور اگر خانگی زندگیوں میں محبت ، اعتماد اور شفقت کی فضا ہو تو غربت کی تلخیاں بھی سکون و اعتماد کو ختم نہیں کر سکتی ۔ اور حقیقی اطمینان و مسرت اسلام اور صرف اسلام کی تعلیم میں مضمر ہے۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160