اصحاب فیل

Posted on at


اصحاب فیل                                                             


 


میرے دوستوں ، آج میں اصحاب فیل کے واقعہ کی تفصیل سنانا چاھوں گا آپ کو . جیسا آپ سب جانتے ھیں کہ قرآن مجید میں بھی سوره فیل میں الله رب العزت نے اس  لشکر کے بارے میں ذکر کیا ہے تو آج کے اس بلاگ کا مقصد اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ ہر لحاظ سے بیان کرنا ہے اور میری کوشش ھو گی کہ میں تمام معلومات سہی معنوں میں اس قصّے کی آپ کو بتاؤں


 


یہ واقعہ ٥٢٥ء کا ہے جب نجران میں یمن کے یہودی بادشاہ نے عیسایوں پر سخت مظالم کا آغاز کیا تو اس بادشاہ کو روکنے کے لئے اور بدلہ لینے کے لئے حبش کی عیسائی حکومت نے یمن پر حملہ کر کے اس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور پورے علاقے پر حبشی حکومت کا جھنڈا فضا میں اونچا کیا گیا . اس وقت رومی سلطنت ، مصر اور شام پر بھی قبضہ جما چکی تھی . انکا حبشی حکومت سے گٹھ جوڑ تھا . ان کی یہ کوشش تھی کہ مشرقی افریقہ ، ہندوستان ، انڈونشیا اور دیگر ممالک کی جس تجارت پر عرب صدیوں سے قابض تھے ، اسکو عربوں سے چھین لیا جاۓ . اس لئے رومیوں نے اپنا جنگی بیڑا بحر احمر میں لا کر اس تجارت کو ختم کر ڈالا


 


اس کے بعد انہوں نے بری راستے پر قبضہ کرنے کے لئے حبش کی حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اسے یمن پر قابض کرا دیا . یہاں پر حبشی فوج کا ایک سردار جس کا نام ابرہہ تھا ، نہایت ہوشیار اور چالاک تھا . یہ شخص دیکھتے ھی دیکھتے  یمن کا خود مختار بادشاہ بن گیا . یمن میں پوری طرح سے اپنا اقتدار مظبوط کر لینے کے بعد اس نے اپنے دو مقاصد یعنی عیسائیت کی اشاعت اور عربوں کی تجارت پر قبضہ کرنے کے لئے کام کرنا شروع کر دیا . ابرہہ نے یمن کے دار الحکومت صنعا میں ایک عظیم الشان کلیسا " القلیس " کے نام سے تعمیر کرایا اور پھر شاہ حبش کو خط  لکھا جس میں اس نے واضح کہا کہ وہ عربوں کو حج کعبہ سے اس کلیسا کی طرف موڑ کر ھی رھے گا . چنانچہ اس مقصد کے لئے اس  نے منادی کرا دی . عام منادی کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ عرب کے عوام شدت غم اور غصّے میں آ کر کچھ ایسی کاروائی کریں جس سے اسے آسانی سے کعبے پر حملہ کر کے اسے گرانے یا ڈھانے کا موقع مل جاۓ


 


اسے اپنے اس مقصد میں کامیابی ھوئی اور عربوں کے شدید رد عمل کے اظھار کو ابرہہ نے بہانہ بنایا اور ٥٧٠ ء میں ساٹھ ھزار فوج اور تیرہ ہاتھی لے کر مکّہ معظہ کی جانب رخ کیا . راستے میں عربوں نے کہیں کہیں ابرہہ سے مزاحمت کی مگر شکست کھا کر جانی اور مالی نقصان اٹھایا . مکّہ کے نزدیک پہنچ کر ابرہہ نے پڑاؤ ڈالا اور حکم دیا کہ مکّہ والوں کے مویشی لوٹ کر لے آؤ . چنانچہ اس کے حکم پر سپاہی سینکڑوں مویشی لوٹ کر لے آئے . ان مویشیوں میں حضور اکرم ( صل الله علیہ وسلم ) کے دادا عبد المطلب کے دو سو اونٹ بھی تھے اور مکّہ کے سب سے بڑے سردار بھی اس وقت عبد المطلب ھی تھے . اس کے بعد ابرہہ نے ایک ایلچی کے زریعے مکّہ میں اپنا پیغام دیا کہ


 میں تم سے لڑنے کے ارادے سے نہیں آیا ھوں


بلکہ صرف کعبہ ڈھانا میرا مقصد ہے . اگر تم نہ لڑو


تو تمھارے مال اور جان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے


گا 


 


 


عبد المطلب نے جواب میں کہا کہ ھم میں ابرہہ کے لشکر کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہمّت نہیں ہے ، کعبہ الله رب العالمین کا گھر ہے ، وہ چاہے گا تو خود ھی اپنے گھر کی حفاظت کرے گا . اس کے وہ خود ایلچی  کی ساتھ ابرہہ کے پاس چلے گئے . ابرہہ نے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ھیں؟ ؟ عبد المطلب نے کہا کہ میں اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کرتا ھوں جو آپ کے لشکر کے سپاہی پکڑ کر لے آئیں ھیں اور کچھ نہیں چاہتا . یہ  سن کر ابرہہ نے کہا کہ آپ عجیب آدمی معلوم ھوتے ہیں . میں یہاں مکّہ میں آپ کا دینی اور روحانی مرکز کو تباہ کرنے آیا ھوں اور آپ ہیں کہ اسکے بارے میں کچھ کہنے کی بجاۓ اپنے اونٹوں کی واپسی چاہ رھے ھیں . اس پر عبد المطلب نے کہا کہ کعبہ الله تعالیٰ کا گھر ہے . وہ ذات اپنے گھر کی خود نگہبان ہے اور وھی اپنے گھر کی خود حفاظت کرے گا


 


چنانچہ ابرہہ نے انکے اونٹ واپس کرنے کا حکم دے دیا اور ساتھ میں اپنے لشکر کو کعبے کی طرف چڑھائی کا حکم دیا . عبد المطلب مکّہ واپس آ  گئے اور شہر والوں سے کہا کہ وہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں پر محفوظ مقام پر چلے جائیں اور سرداران قریش کے ساتھ حرم میں حاضر ہوۓ . بتوں کو بھول گئے اور صرف الله تعالیٰ کی ذات سے رو رو گڑگڑا کر دعائیں مانگیں . یہی سال نبی کریم ( صل الله علیہ وسلم ) کی ولادت مبارک کا تھا  . اس کے بعد عبد المطلب اپنی بہو سیدہ آمنہ کے گھر گئے اور انکے پاس جا کر الله تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگیں ، کیونکہ نشانیوں سے ظاہر ھو چکا تھا کہ انکے ہاں پیدا ھونے والا بچہ اللہ رب العالمین کا خاص اور محبوب بندہ ہے . دعائیں مانگ کر عبد المطلب اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑوں میں چلے گئے


 


دوسرے روز جب ابرہہ اپنے لشکر کے ساتھ مکّہ میں داخل ھونے کے لئے بڑھا تو اسکا خاص ہاتھی جس کا نام محمود تھا یکایک بیٹھ گیا اور آگے نہ بڑھا .تبر اور انکسوں کے کچوکے کھا کر بھی وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا یہاں تک کہ وہ مار کھا کھا کر زخمی ھو گیا مگر آگے کی بجاۓ پیچھے کو دوڑنے کی کوشش کرتا رہا . اتنے میں آسمان پر ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچوں اور پنجوں میں کنکر لئے فضا میں نمودار ہوۓ اور لشکر پہ ان کنکریوں کے ساتھ شدید قسم کی یلغار کر دی . جسی پر بھی یہ کنکر گرتا ، اسکا جسم گلنا شروع ھو جاتا اور سخت کھجلی لاحق ھو جاتی اور پھر جسم پر سے گوشت جھڑنا شروع ھو جاتا . خود ابرہہ کا بھی یہی عبرتناک حشر ھوا . ان لوگوں نے واپس بھی بھاگنا چاہا مگر الله تعالیٰ کی قدرت کہ ان کو واپسی کا راستہ بھی نہ ملتا تھا


 


حتی کہ سب کے سب دردناک موت سے دو چار ھو گئے . یہ واقعہ مزدلفہ اور منی کے درمیاں وادی مسحر میں پیش آیا . اسی لئے سرکار دو عالم ( صل الله علیہ وسلم ) کا ارشاد ہے کہ وادی مسحر میں نہ ٹھہرا جاۓ  . یہ تھا وہ واقعہ میرے دوستوں جس کو شروع سے آخر تک آپ کی خدمت میں گوش گزار کر دیا اور قرآن مجید کی سورت الفیل بھی اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے


 


پسند آئے تو اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ شیئر ضرور کیجئے گا


الله حافظ


 


بلاگ رائیٹر


نبیل حسن



About the author

RoshanSitara

Its my hobby

Subscribe 0
160