صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا۔۔۔۔۔۔۔إإ

Posted on at


 میاں نواز شریف صاحب نے ایکسپورٹر کو ایوارڈ دینے کی تقریب میں کہا کہ ًصنعتوں کو قومی تحویل میں لینا تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، ایسا نہ ہوتا آج بیروزگاری نہ ہوتیً۔ اس بیان میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا تاریخ کا سیاہ دن تصور کیا گیا۔ جناب میاں صاحب صنعت چاہے سرکاری تحویل میں ہو یا پراہیویٹ، اس کا مقصد پروڈکشن اور معیشت کو مضبوت کنا ہے، کسی بھہ صنعت کا سربراہ خصوصا ایڈمنسٹریشن اہم رول ادا کرتی ہے۔ 

                 

مضبوط ایڈمنسٹریشن ادارے کو فعال بنانے میں مین کردار ادا کرتی ہے۔ اگر ایڈمنسٹریشن کمزور ہو تو کسی بھی صنعت کا زوال آنا اچنبے کی بات نہیں، مگر ہماری بدقسمتی یہ ہی کہ صنعت سرکاری تحویل میں جاتے ہی اسے کمزور ہاتھوں میں تھما دیا گیا۔ سرمایہ داروں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے من پسند نا اہل لوگ ادارے کے سربراہ بنادیے گیے۔ ان لوگوں کے پاس نہ تو ان صنعتوں کے بارے میں ماسٹر ڈگری یا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ایڈمنسٹریشن کمزور سے کمزور ہوتی گہی جس کی وجہ سے ان اداروں کو تالے پڑگیے جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بےروزگار ہوھے۔ انڈسٹری تو ایک طرف ہمارے ملک پاکستان کو بھی آج تک وہ کابینہ نہ مل سکی جو اس ملک کی ترقی میں فھال کردار ادا کرسکے اور ملک کو بحرانوں سےآزادی دلا کر ترقی کی طرف گامزن کرسکے۔

روزاول کی طرح آج بھی ہم لوگوں کا وہی مسلہ سرفہرست ہے۔ بے روزگاری اور غربت نے ملک اور عوام دونوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ہمارے جتنے بھی حکمران آے انہوں نے اپنی کابینہ کوتشکیل دینے کے لیے زیادہ گہراھی میں جانا مناسب نہ سمجھا اور بندر بانٹ کر اپنی کابینہ بنالی۔ آج تک کسی حکمران کو وزارت دیتے ہوے اس چیز کو مدِنظرنہیں رکھا کہ جس کو جس شعبہ کا بنا رہے ہیں کیا وہ اس کا اہل بھی ہے یا نہیں؟ اگر وزارتیں بانٹے وقت ان چیزوں پر کر لیا جاتا تو آج نہ تو ہماری پانچ بڑی انڈسٹریاں بند ہوتیں اور نہ وہ ادارہ خسارے میں جاتا۔

اب دوسرے پہلو پر بات کریں کہ صنعتیں پراھیوٹاہز ہونی چاہیے اس میں کوہی شک نہیں کہ پراہیویٹ انڈسٹری زیادہ پروڈکشن دیتی ہے بنسبت قومی انڈسٹری کے۔ کیوں کہ ان کی ایڈمنسٹریشن اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ مزدور کا خون چوسنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ وہ جاہز ناجاہز طیقے سے صرف اور صرف دولت کمانے کے چکروں میں ہوتی ہیں۔ ملک کی انڈسٹریل سٹیٹس کو ہی دیکھ لیں، جتنی بھی انڈسٹریز کام کر رہی ہیں کیا مزدوروں کو ان کا حق مل رہا ہے۔ نہیں۔۔إ ما سواے چند ایک فیکٹریوں کےباقی تمام فیکٹریاں نہ وقت پر مےمنٹ کرتی ہیں اور نہ ہی مزدور کے حقوق کا خیال رکھتی ہیں۔ حتی کے گورنمنٹ کے اعلان کے مطابق مزدوروں کی کم از کم تنخواہ دس ہزار مقرر کی گہی ہے لیکن اس کے باوجود چند فیکٹریوں کے علاوہ کوہی ایسی فیکٹری نہیں جو کسے مزدور کو دس ہزار تو کیا سات ہزار بھی دیتی ہو۔ یہ تمام فیکٹریاں پراہیویٹ ہیں اور لیبرزلاء کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں۔

 

خداراہ انڈسٹری پراہیویٹ ہو یا قومی، ان کی لیے کوہی خاص قانون بنایا جاہے اور اس چیز کا پابند کیا جاہے کہ ایڈمنسٹریشن کی سٹاف کی بھرتی کرنے کے وقت جس پراڈکٹ کے لیے فیکٹری چلاہی جا رہی ہے اس میں سٹاف کی تعلیم اور تجربہ کتنا ہے، وہ یس کے اہل ہیں بھی کہ نہیں۔ اگر ان باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوھے بھرتی کے وقت میرٹ کو بنیاد بنا لیا جاہے اور اہل لوگوں کو بھرتی کیا جاہے تو کوہی وجہ نہیں کہ ہماری انڈسٹری کسی بحران کا شکار ہو۔



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160