ہزارہ صوبہ کا نعرہ موجب امتیازات، حکمرانوں کی دسویں نسل ( حصہ دوئم

Posted on at


ہزارہ صوبہ کا نعرہ موجب امتیازات، حکمرانوں کی دسویں نسل


( حصہ دوئم)



شاہراہ ریشم کی تکمیل 1979 کو اختتام پذیر ہوئی۔ آج 2014 یعنی 35 سال، اس عرصہ میں ہزارہ ڈویژن کی آبادی تین گنا بڑھ گئی ہے  اور واحد ذارئع آمدورفت کو وہی روڑ بغیر کسی توسیع اور متبادل روڑکے،  حسن آبدال سے مانسہرہ تک تین گنا گاڑیوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ آبادیوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔  آئے روز ٹریفک حادثات میں قیمتی جانوں کا ضیاع عام معمول ہے۔ اس کے  ساتھ ساتھ


ٹریفک کے رش کے باعث    گاڑیوں کی رفتار آہستہ  ہوتی  ہے فیول کنزمشن زیادہ ہوتی ہے اور ہمارے ملک کثیر زرمبالہ خرچ ہوتا ہے اور عوام کا بیش قیمت وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔  گاڑیوں کے ایدھن کا اپنی مقدار سے زائد خرچ ہماری کمزور اور ڈوبتی ہوئی معاشیت کے لئے ایک اور دہچکا ہے اس کی بنیادی وجہ   سنگل لین روڑ ہے جسے ڈبل روڑ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔  ایک اور روڑ جس کی فزیبیلٹی رپوٹ بن چکی ہے جو ہری پور اور اسلام آباد کو بذریعہ سرنگ ملانا تھا ،خانپور کی ملحقہ پہاڑیوں سے  سرنگ نکال کر اسلام آباد سے جوڑنا تھا حکومتوں نے اس منصوبوں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔



 


جس کا فائدہ بلخصوص ہری پور اور بلعموم ہزارہ ڈیژن کے عوام کو تھا ،اگر اسے بنا دیا جاتا تو اسلام آباد اور ہری پور کا راستہ بذریعہ روڑ پونے گھتٹے کا تھا کیوں کہ ان مرکزی شہروں میں بیھٹی ہوئی اشرافیہ کو ویسے بھی حکومتیں جانیشی میں ملی ہیں ان کی رگوں میں بنفشی شاہی خون دوڑ رہا ہے جب تک باہر سے تیسری قوت ہمارے ملک میں مسلط نہیں ہوتی اس ملک کے باسی کو انصاف نہیں ملے گا جبکہ اس ملک میں عدالتیں اور انصاف بازاروں میں بکتا رہے گا۔




160