ہزارہ صوبہ کا نعرہ موجب امتیازات، حکمرانوں کی دسویں نسل( حصہ سوئم

Posted on at


ہزارہ صوبہ کا نعرہ موجب امتیازات، حکمرانوں کی دسویں نسل حصہ سوئم



 


یہ بھی حقیقت ہے جنگلات جو ہزارہ ڈویژن کا بیش قیمت اثاثہ ہے اور ہمارے پہاڑوں کی زینت ، انہی کی وجہ سے سارے ملک کے سیاح ہزارہ ڈویژن کے پر فضا مقامات کی سیر کرنے آتے ہیں جو ہمارے علاقوں کے لوگوں کا وسیلہ روزگار بھی بنتے ہیں۔ جنگلات کی ظلمانہ طریقے سے کٹائی   کے پیچھے بلاواسطہ ہاتھ اٹک پار سے تعینات وائٹ کالرز کا ہے۔ اس افسران کے خواب ملک بھر میں خوبصورت بنگلے بنانا اور بنک اکاؤنٹ کو بھرنا ہے ، ہر سال ہزارہ ڈویژن کے جنگلات کا مالیہ ایک ارب تک ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ٹمبرمافیا جو ان افسران کی ملی بھگت سے لاکھوں فٹ لکڑ سمگل کرتے ہیں۔



 


ان پشاروری افسران کو تعصب کی بنیاد پر اور ہزارہ کے حق پر ڈاکے مارنے کے لئے قیام پاکستان کے وقت سے لیکر آج تک تعینات کیا جاتا رہا۔ کیونکہ ہزارہ ڈویژن کے غیور عوام نے اس وقت گاندھی کی بجائے قائداعظم علی جناح کا ساتھ دیا تھا۔ جس کی بنا پر یہ سارا خطہ سرزمین پاکستان کا حصہ بنا۔ اور اس کا شاخسانہ ہم آج ہزارہ ڈویژن کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔



اور بھی بہت ساری امتیازی سلوک جن میں خصوصاً کسٹم ان پیڈ گاڑیوں اور سمگل شدہ غیر ملکی اشیا کی ہیں جو تھاکوٹ پل سے اس پر سستے داموں اور اٹک پار کے اس پار سستے داموں پا سکتے ہیں۔ کسٹم چیکنگ اہلکار بجائے ملکی سرحدوں سے ان اشیاء کی روک تھام کے لئے انہوں نے اٹک پل پر اور تھاکوٹ پل پر ڈیرے جمائے ہوتے ہیں کہیں ان سے ہزارہ کی بدقسمت عوام نہ مستفید  ہو جاے کیونکہ پورے صوبے کے باضابطہ قوانین کا نفاذ صرف ہزارہ ڈویژن میں ہے۔



ہزارہ ڈویژن کے ساتھ ایک اور امیتازی سلوک بجلی کی مداء میں وہ رہلٹی ہے جو وفاق کی جانب سے صوبے کو ملتی ہے۔ بدقسمتی سے اتنی بڑی رقم ہزارہ ڈویژن  کے فلاحی کاموں پر لگانے کی بجائے صوبائی مرکز میں ہی ترقیاتی کاموں کے نام پر خرد برد کر دی جاتی ہے جو اصل میں صوبائی افسران اور وزراء کے درمیان بندربانٹ ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ وفاقی حکومت نے بجلی   کے نرخ یونٹ  15 سے 20 روپے کے حساب سے مقرر کر دی ہے، ہزارہ ڈویژن میں بجلی کی کل لاگت 300 سے 500 میگاواٹ تک ہے  جب کہ ہزارہ کی سرزمین پر قائم تربیلہ ڈیم جس کی بجلی کی پیداوار 1800 سے 3500 میگا واٹ ہے جس کے نرخ 50 پیسے فی یونٹ بنتی ہے اور اس سے بڑا امیتازی فرق اور سلوک ہزارہ کے عوام سے کیا ہوگا جس خطہ کی سرزمین ملک کو 50 پیسے فی یونٹ لاگت سے حساب سے بجلی دے رہی ہے اس کو واپسی 13 روپے ڈومیسٹک اور کامرشل 20 روپے بجلی فروخت کر رہی ہے۔ اتنی مہنگی بجلی یقیناً صنعت کے فروغ میں رکاوٹ ہے اور بے روزگاری میں اضافے کا موجب بھی۔ یہی وجہ ہے ہمارے علاقے کی افرادی قوت دنیا کے ہر کونے میں روزگار کے سلسلے میں جاتی ہے اور باہر کے ممالک میں وہاں کی حکوتیں کے نارواں سلوک کی وجہ سے ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔



ہماری اشرافیہ دولت کی حوس میں اندھی ہو چکی ہے اپنی تاریخ کے ان ناکام ادوار کو بھول چکی ہے جن کے کرتوں کی وجہ سے بالخصوص برصغیر کے مسلمانان اور بالعموم پاکستان کے عوام  شدید متاثر  ہوئے ہیں ۔ ہمارے موجودہ  حکمران ، غیر مسلم قوموں کے ان ارب پتیوں سے سبق نہیں سیکھتے جنہوں نے اپنی املاک، جائدادوں اور دولت کا بیشتر حصہ غریب مساکین کی زندگیاں بہتر کرنے اور فلاحی کاموں پر خرچ کر دی ہیں۔ وہ اپنی دس آیندہ آنے والی نسلوں کے پرتیعش رہین سہن کے لئے پیسے نہیں جمع کرتے ، ان لوگ نے تاریخ سے سبق سیکھا ہوا ہے اور اپنی قوموں پر مزید تلخ تجربے نہیں کرنا چاہتے۔



بہادرشاہ ظفر ، مغلیہ مسلم حکمرانی کا آخری چشم چراغ تھا،  انگریز حکومت نے جب اس مغلیہ راج کو ختم کر کے اس بیش بہا دولت زر و جواہر کو بھی ہاتھ میں لے لیا جو اس پہلے مغلیہ سلطنت کے بادشاؤں نے اپنی دسویں نسل تک جمع کی ہوئی تھی۔ اگر وہ ہی دولت اس وقت زرق و برک لباسوں اور محلات پر لگانے کی بجائے تعلیمی درسگاؤں اور سکولوں اور صنعت و حرفت پر لگائی جاتی تو آج کے برصغیر کے مسلمان کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔



ہمارے آج کے حکمران بھی اس روش کو اپنائے ہوئے ہیں ملک کے عوام کے خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت کو لوٹ کر انگلستان اور سوئس بنکوں میں رکواتے ہیں اور اس ملک کے عوام کی میعار زندگی  اور علم و شعور سے روشناس نہیں کرواتے، وہ وقت بھی دور نہیں اس دولت کے مزے تو انہی ممالک کے لوگ استعمال کریں گے اور ان کی دس نسلیں عقوبت خانوں میں اور باقی ریاعا غلامیت میں  اور آزادی کی تحریکوں میں جلوہ افروز ہو گی۔


 



160