سیر و سیاحت

Posted on at


دینی و دنیاوی اعتبار سے ہر انسان پر متعدد فرئض عائد ہوتےہیں ۔ فرائض  ادا کرنے کے بعد بھی ، اس کے پاس کچھ نہ کچھ بچ جاتا ہے۔ چنانچہ اپنی افتاد، طبع ، رجحان اور پسند کے مطابق اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ اس وقت کو کسی ایسے مشغلے میں صرف کرے جس سے اسکی ذہنی تسکین بھی ہو اور اسے روحانی طور پر خوشی ملے۔ اس اعتبار سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور ہر کوئی نہ کوئی مشغلہ اپناتا ہے ۔ بعض کو کھیل سے دلچسپی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ باغبانی میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں اور اسی طرح کچھ لوگ فوٹی گرافی ، ڈاک ٹکٹ جمع کرنے ، مصوری یا کتب بینی میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ میری سب سے بڑی دلچسپیسیر و سیاحت ہے۔

 

مجھے بچپن ہی سے گھونے پھرنے سے طبعی رغبت رہی ہے میرے لیے فارغ وقت میں آرام سے بیٹھنا ممکن نہیں ہوتا ۔ میں اوائل عمر سے ہی اپنے گاؤں اور گردونواع کے خاصے بڑے علاقے سے اطھی طرح واقف ہو چکا تھا۔ مجھے علم تھا کہ اس علاقے میں ریل کہاں کہاں سے گزرتی ہے کچی اور پختہ سڑکیں کہاں سے کدگر جاتی ہیں۔ پھر جب ہماری رہائش میں ہوئی تو بہت جلد میں نے شہر کا چپا چپا چھان مارا۔ تمام مسجدوں ، مدرسوں ، باغات، بازاروں، سکولوں ، مدرسوں اور مزاروں وٖغیرہ سے پوری واقفیت بہم پہنچائی۔ سکول میں اپنی شوق سیاحت کے پیش نظر ہی سکاؤٹنگ میں شامل ہو گیا اور مجھے سکاؤٹنگ دستے کے ہمراہ کئی بار مری ، ایبٹ آباد اور اسلام آباد وغیرہ جانے اور ان جگہوں کو خوب اچھی طرح دیکھنے کا موقع ملا۔ اس سیر و سیاحت سے جہاہ مجھے ذہنی ذہنی لطف اور سرور ملا، وہاں میرے سوق سیاحت میں اور اضافہ ہو گیا۔ بقول شاعر

؎مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا لی

دسویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد ہم تین چار دوستوں نے سوات جانے کا پروگرام بنایا۔ اس کے لیے ہم نے بہت عرصہ پہلے سی اپنی جیب خرچ بچا کر اچھی خاصی رقم جمع کر کے رکھی ہوئی تھی۔ والدین نے بڑٰی مشکل سے اس شرط پر اجازت دی کہ بڑے بھائی صاحب بھی ساتھ لے جائیں۔ ہم چاروں دوستوں نے یہ شرط منظور کر لی اور بھائی جان کی سربراہی میں ہم نے ایک ہفتے تک مینگورہ، سیدو شریف، مدین، بحرین، کالام، اشو اور اتروڑ کی سیاحت کی اور موسم گرما میں سوات کے خوشگوار موسم  اور حسین و جمیل قدرتی مناظر سے لطف اٹھایا ۔ ایک ہفتے کی یہ سیاحت اس قدر پر لطف تھی کہ میرے دل میں اپنے وطن کے بعض دوسرے علاقے دیکھنے کا شوق انٖگرائیاں لینے لگا، مگر مشکل یہ تھی کہ سال کے دوران کسی لمبے سفر پر جانے کی اجازت نہیں ملی۔ البتہ دسمبر کی تعطیلات میں مجھے اپنے ماموں کے پاس کوہاٹ جانے کی اجازت مل گئی۔

 

ان ایام میں ، میں نے اپنے ماموں ذاد بھائی کے ساتھ گردونواع کا علاقہ دیکھ ڈالا، بلکہ کسی نہ کسی بہانے ہم بنوں ، ٹل اور میرانشاہ بھی دیکھ آئے۔

اگر چہ بچپن میں ایک بار پشاور دیکھاتھا لین پھر بھی ایک بار پھر پشاور دیکھنے کا شوق دل میں پیدا ہوا۔ اس کا موقع اپریل کی چھٹیوں میں ملا۔ ہم امتحان سے فارغ ہو چکے تھے، والدین نے بھی بخوشی پشاور جانے کی اجازت دے دی۔ ہم نے پہلے تو دل بھر کے پورے شہر کی کی کوچہ گردی کی۔ تاریخی مسجد مہابت خان دیکھی۔قصہ خوانی بازار، خیبر بازار، سوئیکارنو چوک، یونیورسٹی کیمپیس اور بہت سی دوسری جگہیں دیکھیں، پھر ایک چکر باڑے کا لگایا۔ بعد ازاں لنڈی کوتل اور طورخم تک بھی ہوآئے۔ طورخم کے اس پار افغانستان جانے کا بھی جی چاہتا ہے، مگر وہاں بد امنی کی وجہ سے نہیں گئے اور ویسے بھی ہمارے پاس کونسا  پاسپورٹ اور ویزا تھا۔  



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160