احساس سے جڑے رشتے اور لوگ

Posted on at


مجھ سے کسی نے پوچھا کہ احساس کے رشتے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ یا پھر خون کے ۔ میں نے جواب دیا کہ اگر احساس ہوتو پھر پرائے بھی اپنے لگتے ہیں۔ لیکن اگر احساس نہ ہوتو پھر خون کے رشتے بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ بھی حقیقت بات ہے کہ اگر احساس ہوگا ہمیں تو ہم دوسرے کا خیال رکھیں گے اس کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں۔ لیکن اگر احساس نہیں ہوگا تو پھر تو اپنے خون کے بھی رشتے بھی کسی کام کے نہیں ۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں۔ اخباروں میں پڑھتے ہیں۔ خبریں سنتے ہیں۔ کہ بھائی کے بھائی کو زمین کے لئے مار ڈالا ہے یا دولت کی خاطر مار ڈالا، باپ نے بیٹے کو مار دیا۔ بیٹی نے ماں کا گلہ دبا دیا ۔ تو یہ سب کیا ہے یہ بھی تو خون کے رشتے ہوتے ہیں۔ لیکن احساس سے خالی ہوتے ہیں۔ تو ان کے سامنے وہ رشتے کوئی معانی نہیں رکھتے ۔


اگر یہ لوگ احساس سے جڑے ہوتے ان کے اندر احساس ہوتا تو پھر یہ سب کچھ کرنے یا اس سب کے بارے میں سوچنا بھی ان کیلئے گناہ کبیرہ ہوتا۔ انسان کی زندگی کا اصل مقصد ہی دوسروں کے لئے جینا ہے کیونکہ اپنا درد تو جانوروں کو بھی محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اصل بات تو دوسروں کا دکھ باٹنا ہے۔ اپنے لیے تو ہر کوئی جیتا ہے لیکن دوسروں کیلئے جینا ہی اصل زندگی ہے۔ کہ انسان کسی کو تکلیف میں نہ دیکھ سکے ۔ اسکے درد کو اپنا درد سمجھے تو پھر ہے اصل زندگی ۔ لازمی ہی نہیں کہ کوئی اپنا ہی ہوتو اس کی مدد کی جائے اور یہ بھی لازمی ہی نہیں ہے کہ ایک بڑی مدد کرنے کو ہی ہم مدد احساس کہیں گے بلکہ ہمیشہ اونچائی تک پہنچنے کے لئے پہلے سے چڑھنا پڑتا ہے ۔


اس لئے ضروری ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی کردینا احساس کے ناتے بہت بڑی بات ہے۔ مثلاً اگر ہم کسی سڑک کے کنارے جارہے ہوں اور ہمیں کوئی بزرگ آدمی یا عورت مل جائے تو ہمیں چاہیئے کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کا سہارا بن کر اسے اسکی منزل تک پہنچانا چاہیئے ۔ اگر وہ سڑک پار کرنی ہوتو ہمیں ان کی مدد کرنا چاہیئے۔اسی طرح کسی سواری کے انتظار میں بھی کھڑے آدمی کو بھی اس کی مدد کرنی چاہیئے۔ راستے میں پڑے ہوئے پتھر کو ہمیں ایک طرف کرنا چاہیئے۔ تاکہ کوئی نابینا یا معذور کو کوئی نقصان نہ ہو۔ یہ سب احساس میں ہی شامل ہوتا ہے۔ احساس سے خالی لوگ کبھی زندگی میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے سامنے کسی بھی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔



About the author

160