سوگ یا ماتم

Posted on at


خوشی اور غم تو اہم ہیں انسان کی زندگی میں ہر موسم ایک جیسا نہیں رہتا کبھی خوشی ہوتی ہے تو کبھی غم جس طرح انسان خوشی میں بے اعتدالی کرتا ہے اسی طرح غم کی حالت میں بھی وہ اعتدال سے گزرتا ہے غزلوں میں غم تعزیت و ماتم کی فخروغرور کی وجہ سے عجیب عجیب رسمیں تھیں سب سع ضروری اور اہم یہ تھا کہ مرنے والا جس درجہ کا ہو اسی شان سے اس کا ماتم ہونا چاہیے اس لیے بڑے بڑے سردار جب مرتے تھے تو وصیت کرا جاتے تھے کہ ان کا ماتم ان کی شان کے مطابق کیا جائے حضرت محمدﷺ  نے ان رسوم سے نہایت سختی سے منع کیا آپﷺ نے فرمایا جو شخص گریبان پھاڑتا ہے اور گالوں پر تمانچے مارتا ہے۔



 اور جاہل کی طرح چیختا ہے وہ میری اُمت میں سے نہیں حضرت جعفرؓ سے حضرت محمدﷺ کو بہت محبت تھی ان کی شہادت کی خبر آئی تو ان کے خاندان کی عورتوں نے ماتم شروع کردیا آپﷺ نے منع فرمایا وہ باز نہ آئے دوبارہ منع فرمایا پھر بھی باز نہ ائے تو آپﷺ نے حکم دیا کہ ان کے منہ میں خاک بھر دو دستور تھا کہ جب کوئی مرتا تھا تو عام منادی کرائی جاتی تھی آپﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا حضرت حزیفہؓ جب مرنے لگے تو وصیت کی کہ مرنے کی کسی کو خبر نہ کرنا شاہد خبر کرنا بھی اعلان میں داخل ہو کسی عزیز کی موت پر آنکھوں سے آنسو نکلنا تو فطری عمل ہے جو برا نہیں لیکن زور زور سے چلانا بین کرنا منع ہے حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ مردہ پر اس کے عزیز روئیں تو اس کے رونے سے عزاب ہوتا ہے۔



 کسی مسلمان کے گھر میں کوئی موت ہو تو مناسب ہے کہ عزیز دوست یا محلے میں کھا نا بھیجیں کیونکہ غم کی وجہ سے ان کے گھر میں کھا نا پکانا مشکل ہے ایک مسلمان کا فرض ہے کہ مشکلات میں صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آچھے مسلمان وہ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبتیا مشکل پیش آئے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے تقدیر کا یقین ہی غم کا چارہ کارہے کہ جو کچھ خدا کے حکم اور مصلحت سے ہوا یہ اسلام کی تعالیم ہے اور اس تعلیم کا فائدہ بھی قرآن نے بتا دیا ہے کہ جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے اس پر غم نہ کرو۔




About the author

bilal-aslam-4273

i am a student

Subscribe 0
160