تاج محل پارٹ ۳

Posted on at


جب اہل برطانیہ کا ہندوستان میں اقتدار قائم ہوا تو انکے لیئے بھی یہ تسلیم کرنا مشکل تھا کہ ماضی میں جن خاندانوں نے ہندوستان پر حکومت کی ہے۔ انہوں نے ایسی شاندار عمارتیں تعمیر کروائیں ہیں۔ یا یہ کہ انکا دور حکومت ان سے زیادہ خوشحال اور بہتر تھا۔ لہذا انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ ماضی کو مسخ کر کے اور بگاڑ کے اسکی تصویر پیش کی جاۓ تا کہ انکا عہد شاندار اور عوام دوست نظر آۓ۔ ان کوششوں کے نتیجے میں انہوں نے ماضی کے حکمرانوں کو ظالم و جابر  اور نااہل بنا کر پیش کیا۔ لیکن تاج محل یہاں بھی ان کی راہ میں حائل ہوا کہ اگر ہندوستان کا ماضی  تاریکی اور جہالت میں ڈوبا ہوا تھا۔

تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ اس معاشرے نے تاج محل جیسی خوبصورت عمارت کی تخلیق کی کیونکہ اس تخلیق میں محض حکمرانوں کے ذرائع شامل نہ تھے۔ بلکہ اس میں ماہر تعمیرات کا ذہن دستکاروں،کاریگروں اور خطاطوں کی فنی صلاحیتیں بھی شامل تھیں۔ اس لحاظ سے یہ اس عہد کی تخلیقی صلاحیتوں کا نمائندہ تھا۔ جب ایک اہم برطانوی منتظم میجر سلمن نے آگرہ کا دورہ کیا تو اسکے تاثرات تھے ” تاج محل کی عظیم الشان عمارت” آگرہ اور دہلی کے محلات” یہ سب ایک فرانسیسی آسٹن دو بوردو کے ڈیزائن کیئے ہوۓ ہیں۔ یہ شخص بے حد ذہین اور باصلاحیت تھا اسی وجہ سے اہل یورپ اسکی ایمانداری اور دیانت پر ایمان رکھتے ہیں۔

ہندوستان میں فرقہ واریت کے پھیلاو اور ہندتوا کے نظریہ کی مقبولیت کے باعث ہندوستان کی تاریخ نویسی بھی متاثر ہوئی ہے۔خاص طور سے موجودہ حالات میں کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے۔ اس قسم کی کوششیں ہو رہی ہیں کہ تاج محل کے بارے میں یہ ثابت کیا جاۓ کہ اسے شا ہجاں کے حکم سے تعمیر نہیں کیا گیا تھا۔



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160