جنگ آزادی 1857ء
کے بعد جن شخصیات نے مسلمانوں کی قومی زندگی میں اہم کردار ادا کیا اور ان کے افکار اور نظریا ت پر سب سے زیادہ اثر ڈالاان میں سرسید احمد کا نام سرفہرست ہے۔سرسید احمدخان جدید مغربی علوم کے حصول اور انگریز حکمران سے اچھے تعلعقات
کو مسلمانوں کی تمام مشکلات کا حل سمجھتے تھے۔ان مقاصد کو پیش نظر رکھ کر انھوں نے تعلیمی ،سیاسی اور ادبی میدانوں میں مسلمان قوم کی بھلائی کے لیے عظیم خدمات سرانجام دیں۔سرسید نے نہ صرف اپنی تحریروں کے زریعے مسلمانوں اور انگریزوں
کے درمیان
غلط فہمیاں دور کیں اور ان کو قریب لانے کی کوشش کیں۔بلکہ ہندو انتہا پسندوں کی
مسلم دشمن سرگرمیوں سے مایوس ہو کر دو قومی نظریہ بھی پیش کیا جو بعد میں نظریہ پاکستان کی بنید بنا۔
جنگ آزادی کے بعد کے دور میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت خراب
ہو گئی تھی۔کیونکہ مسلمان آبادی کی اکثرت نے محض انگریز دشمنی کی بنا پرجدید مغربی علوم کے حصول سے انکا ر کر دیا تھا۔مسلمانوں کو یہ خوف تھا کہ مغربی علوم سیکھ کر ان کے بچے اپنے مزہب سے دور ہو جائے گے۔
سرسید احمد خا ن نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ انگریزی زبان اور جدید مغربی علوم کے خلاف
منفی رویہ ترک کر دیں ۔ان کا خیال تھا کا مسلمانوں کو وقتی طور پر سیاحت
میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ اپنی تمام تر توجہ تعلیمی ترقی پرمرکوز کرنی چاہیے تا کہ وہ نہ صرف ملازمتوں میں اپنا حصہ حاصل کرسکے بلکہ ان پر انگریز حکمرانوں کا اعتماد بھی بحال ہو۔ علی گڑھ تحریک کے باقائدہ آغاز سے پہلے ہی سے سرسید احمد خان نے تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی ترقی کو اپنا زندگی کا مقصد بنالیا تھا۔اپنی ملازمت کے دوران انھوں نے1859ء میں مرادآباد میں اور اس کے بعد غازی پور کے مقام پر سکول قائم کیے 1863ء میں انھوں نے غازی پور میں سائینٹفک سوسائٹی کےنام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد یو رپی زبانوں میں مختلف علوم پر لکھی گئی کتابوں
کا اردو زبان میں ترجمہ کراکے ہندوستان کے لوگو ں کو یہ موقع فراہم کرانا تھا کہ وہ ان کتابوں سے فائدہ حاصل کر سکیں۔
1869ء میں سرسید احمد خان اپنے بیٹے سیدمحمود کے ساتھ انگلستان
گئے ۔سرسید سمجھتے تھے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں انگریزوں کی ترقی میں ان کے نظام تعلیم کا کردار سب سے اہم ہے۔لہٰزا انگلستان میں قیام کے دوران سرسید احمد خان نے وہا ں کے چند بہترین تعلیمی اداروں کا دورہ کر کے ان کے طرزتعلیم کا بغور مشاہدہ کیا۔