فکر سے ہوتا ہے جہاں تازہ

Posted on at


فکر سے ہوتا ہے جہاں تازہ



یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاہد!


دمادم آ رہی ہے صدائے کن فیکون


 


اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا اور عقل خرد، شعور دانش، تلاش و جستجو، اور سب سے زیادہ تفکر و تدبر کا ذوق عطا کیا۔  اور اپنی فکر کے بل بوتے پر آج سمندروں ، دریاؤں، زمین کے اندر ، زمین کے باہر اپنے جوہر دیکھا رہا ہے اور  ہواؤں اور خلاؤں تک پہنچ گیا ہے۔



نئے افکار نئے تہذیبوں کو جنم دیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو سب سے زیادہ فکر و دانش سے مزین کر کے اشرف المخلوقات کا درجہ دے دیا جس سے فکر تازہ اور فکر سلامت کی دولت نصیب ہوئی ، آج سقراط، و بقررط ارسطو و افلاطون، ابن سینا و فارابی اور مختلف ادوار کے مفکرین و فلاسفہ کے کارناموں سے مرہون و شکرگزار ہے۔


مرے ذوق تسخیر فطرت کے آگے


عناصر کا قلب و جگر کانپتا ہے



کیا زمانے کے ساتھ فکر و شعور کا بھی بدلنا ضروری ہے ؟


جی ہاں ورنہ دقیانوسی افکار رجعت پسندانہ طرز فکر سے تو قومیں اور افراد جمود کا شکار ہو جاتی ہیں۔  اس کی ایک مثال پانی کی ہے اگر ایک جگہ پانی کھڑا رہے  تو اس میں سڑاند تعفن اور بدبو پیدا ہو جاتی ہے لیکن اگر یہی پانی رواں دواں رہے تو باعث سیرابی بنتا ہے۔  لہذا ہمیں زمانے کے تقاضوں کے مطابق تگ و دو اور جدوجہد کرنی چاہیے اور یہ اس حقیقت سے انحراف نہیں ہر نئے دن کا سورج زمانے کے نئے تقاضے لے کر طلوع ہوتا ہے۔  تاریک خیالی سے ہی نکل کر ہم اقوام عالم میں اپنا جائز مقام پا سکتے ہیں۔


یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا


قومیں کچل گئی ہیں اس کی رواروی میں



160