جہیز ایک آفت

Posted on at


جہیز ایک آفت


ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی برائیاں ہیں۔ جنہیں ہم فیشن سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں۔ جب کوئی برائی فیشن بن جائے یا پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ کہ جب ہم کسی برائی کو برائی نہ سمجھیں تو پھر اس سے چٹھکارا پانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ہم جس طرح کےمعاشرے میں رہتے ہیں۔ جہاں پلتے بھڑتے ہیں۔ تو پھر اسی معاشرے کے رواج کو اپنا لیتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہی ہوتا کہ ہم اس برائی میں کتنا اندر دھنستے چلے جارہے ہیں۔


جہیز بھی انہی برائیوں میں سے ایک برائی ہے۔ جہیز آخر ایسی کیا چیز ہے ۔ جسے ہم اتنا زیادہ چاہتے ہیں۔ کہ ہم انسانوں بلکہ اپنی بہنوں، بیٹیوں کی زندگی تک کو داؤ پر لگاتے ہیں۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ کہ اگر کوئی غریب ہے۔ وہ اپنی دو وقت کی روٹی مشکل حالات میں پوری کررہا ہے ۔ ایک بوڑھا بزرگ ہےجس کی چھ بیٹیاں بن بہائی گھر میں بیٹھی ہیں۔ صرف اس لئے کہ اسے معاشرہ ٹھکرا رہا ہے۔ کوئی رشتہ لینے کو تیار نہیں ہے۔ وہ بھی صرف چند چیزوں اور پیسوں کی خاطر ۔ یہاں تک کہ ان کے سروں میں چاندی چمکنے لگے۔ اگر ایسا ہوتا ہے۔ تو پھر کون کرے گا ان سے شادی ۔


میں اکثر بار ایسا سوچتا ہوں کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں۔ کیا انہیں خدا کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ کیا انہیں اس بات پہ ذرا بھی ڈر نہیں لگتا کہ اگر ان کی جگہ ان کی اپنی بیٹی یا بہن ہوتی تو پھر کیا بیتتی ان کے دل پر کیا پھر وہ کرلیتے برداشت جب ان کی بیٹی گھر بیٹھی رہتی اور ان کا رشتہ صرف اس لئے نہ ہوتا کہ ان کے پاس انہیں دینے کیلئے جہیز نہیں ہے۔


آخر کب تک یہ سب چلتا رہے گا، آخر کبھی نہ کبھی تو کسی کو بولنا پڑےگااس کے خلاف ۔ آخر کب تک ہم اسی سسٹم میں چلتے رہیں گے۔ آج سے اس بات کو پتہ کرلیں کہ کم سے کم ہم تو ضرور بولیں گے اس کے خلاف۔ کیونکہ اگر آج نہیں بولیں گے تو کل کو ہم بھکتے گیں ضرور کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے، جو ہمارے منہ پر آکر لگے گی۔ کیونکہ آسمان کا تھوکا ہمیشہ منہ پر ہی گرتا ہے۔ وہ بھی اپنے ہی۔



160