میانہ روی

Posted on at


میانہ روی


زندگی گزارنے کے کامیاب اصولوں میں سےایک میانہ روی ہے۔ جو عمل حد سے گھٹ جائے یا حد سے بڑھ جائے تو وہ عمل غیر فطری ہو جاتا ہے ۔


حدیث میں ارشاد ہے کہ


   ‘‘میانہ روی اختیار کرو اور خوش باش رہو’’


قرآن کریم ہمیں رویوں میں اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔


ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ کہ جب زمین پر چلیں تو اکڑ کر نہ چلیں۔ جب بات کریں۔ تو درمیانی آواز میں کریں۔ اتنی اونچی آواز نہ ہوجو کانوں کو گراں سے گزرے اور اتنی نیچی نہ ہوکہ سنائی نہ دے۔ اسی طرح خرچ کرنے میں بھی میانہ روی اختیار کرنی چاہیئے۔


قرآن پاک میں ہے۔


کہ رحمان کے بندے وہ ہیں۔ جو خرچ کرتے ہیں۔ تو اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں ۔ بلکہ وہ میانہ روی سے کام لیتےہیں۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے


کہ میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کےلئے پیدا کیا۔ عبادت کی اس اہمیت کے باوجود اسلام نے اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ بعض صحابہ عبادت کے شوق میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ کئی کئی دن رکوع میں کھڑے رہتے اور سجدے میں گرے رہتے۔


تو رسولؐ نے انہیں راہ اعتدال کا درس دیا اور فرمایا کہ میں نفلی روزہ بھی رکھتا ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں۔ اس طرح میں تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اور فرمایاکہ تم پر تمہارے جسم و جاں کا بھی حق ہے اور بیوی بچوں کا بھی۔ رسولؐ نے جہاں عبادت میں ذوق شوق اور انہماک کی تعلیم دی وہی دنیا اور رہبانیت سے بھی منع فرمایا۔ اور عبادت میں بھی میانہ روی کی تعلیم دی ۔


اخلاق و کردار میں بھی میانہ روی کی تعلیم فرمائی ہے۔ اور ہمیں غرور و تکبر سے بھی منع فرمایا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ چلنے میں بھی میانہ روی اختیار کرو۔ اور نہ ہی اکڑ کر چلو اور نہ ہی مریل چال سے چلو۔ اپنے فرزند کی وفات پر اپؐ کی آنکھوں سے آنسوں نکل پڑے لیکن زبان سے بے صبری کا اظہار نہ ہوا۔ کھانے میں بھی میانہ روی سے کام لینا چاہیئے۔


قرآن کریم ایک طرف اسراف اور فضول خرچی سے بھی روکتا ہے۔ تو دوسری طرف بخل اور کنجوسی سے روکتا ہے۔ اورمیانہ روی اختیار کرنے والا کبھی تنگ دست نہیں ہوتا۔ ہمیں چاہیئےکہ زندگی کے تمام معاملات میں میانہ روی اختیارکریں۔



About the author

160