23 مارچ کو مسلم لیگ نے ایک اجلاس منعقد کیاجس میں قائد اعظم کے خطاب کے نتیجے میں ایک قرارداد کا مسودہ تیار کیا گیا۔ جسے 23 مارچ 1940ء کو مولوی فضل الحق نے پیش کیا۔ بہت سے بڑے بڑے اسلامی رہنمائوں نے اس قرارداد کی تائید کی اس قرارداد میں یہ درج تھا کہ:
مسلم لیگ اس بات کی پر زور اعادہ کرتی ہے کہ 1935 کے آئین میں جو سکیم پیش کی گئی ہے وہ نہ تو ہندوستان میں قابل نفاذ ہے اور نہ ہی اسے مسلمان قبول کریں گے۔ مسلمان صرف کھولے وعدے اور اس دستور پر دوبارہ نظر ثانی کرنے کے وعدے سے مطمئن نہیں ہو سکتے۔ مسلمانان ہند یہ چاہتے ہیں کی اس دستور کو مکمل طریقے سے بدلا جائے۔ہندوستان میں صرف وہ قانون لاگو ہو گا جس کی مسلمان منظوری دیں گے۔ اور وہ دستور قابل عمل ہو گا جو ان اصولوں پر بنا ہوا ہو۔ وہ علاقے جن میں مسلمانو ں کی اکثریت ہے اور وہ علاقے باہم آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ ان کو کی حدود مقرر کی جائے ۔ تا کہ وہ آزاد مسلم ریاستیں بن جاہیں۔اور یہ بننے والی ریاستیں آزاد اور خودمختار ہوں۔ اور ان ریاستوں میں ہر کسی کو برابری کے حقوق حاصل ہوں۔
23 مارچ 1940ء کو مندرجہ بالا تمام جزیات مسلم لیگ نے قبول کر لیں اور انہیں منظور کر دیا۔ اس قرارداد کے پاس ہونے کے بعد ہندوں نے اس قرار داد کو بہت غلط طریقے سے اُچھالا اور انھوں نے اسے قراداد پاکستان کا نام دیا۔ حلانکہ مسلمانوں نے اسے قرادداد پاکستان کا نام نہیں دیا تھا۔ ہندوں نے اسے اچھالا اور مسلمانوں ہی کا بھلا کر دیا۔ گویا آسمان کا تھوکا منہ پہ آگیا۔ قرارداد لاہور کے منظور ہونے کے بعد ہندوں اور انگریزوں نے بہت شور مچایا۔
تقسیم ہند کت نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو بڑھا چھڑھا کر بیان کیا جاتا۔ گاندی جی تک کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ تقسم ہند تو بلکل ایسے ہے جیسے ایک گائے کے دو ٹکڑے کر دینا۔ دراصل انگریز بھی یہ نہیں چاہیتے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو الگ شخصیت ملے اسی لیے انہوں نے ہندؤں کی پر زور حمایت کی۔جب مسلمان اپنی بات پر اڑ گیے تو انگریزوں نے بیتری کوشش کی کی کسی طرح ہندوستان کے حصے نہ ہوں۔ آخرکار انگریزوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور انہوں نے انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا۔ ان انتخابات میں مسلمانوں نے مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دیا۔ اور مسلمانوں نے مسلم اکثریت علاقوں میں واضع برتری حاصل کی۔ ان ہی کوششوں اور محنتوں کے بعد پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا۔