جنگ بدر - تاریخ ساز معرکہ

Posted on at


جنگ بدر - تاریخ ساز معرکہ          



نبی کریم ( صل الله علیہ وسلم ) کی ہجرت مدینہ کے دوسرے سال ماہ رمضان المبارک میں جنگ بدر لڑی گئی . کفار و مشرکین مکّہ کو آپ ( صل الله علیہ وسلم ) کا مکّے سے بچ کر نکل جانا بہت ناگوار گزرا . مدینے میں آپ ( صل اللہ علیہ وسلم ) کی پذیرائی اور اسلام کی خبریں سن کر ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے . وہ آپ ( صل اللہ علیہ وسلم ) کا زور توڑنے ک لئے حد سے زیادہ بے چین نظر آتے تھے . چنانچہ انہوں نے ایک ھزار آدمیوں پر مشتمل لشکر جنگی ساز و سامان اور اشیاۓ خوردنی کے ساتھ تیار ھو کر حملے کی غرض سے مدینہ پر رخ کیا                                         


کفر کے لشکر نے مدینے سے نکل کر بدر کے مقام پر پڑاؤ ڈالا . حضور پاک ( صل الله علیہ وسلم ) کو ان کی نقل و حرکت کا پتہ چل چکا تھا . چنانچہ آپ نے بدر کے مقام پر ہی ان سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا . حضور کریم ( صل الله علیہ وسلم ) کے ساتھ تین سو تیرہ جاں نثار تھے اور وہ بھی بےسروسامانی کی حالت میں تھے


 


ان دونوں گروہوں کا اخلاقی فرق واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا کیونکہ  ایک طرف  کفا کا لشکر میں شرابوں کے دور چل رہے تھے اور ناچنے ، گانے والیاں ساتھ تھیں اور خوب داد و عیش دی جا رھی تھی تو دوسری طرف مسلمانوں کے لشکر میں پرہیزگاری تھی .ایمان اور  تقویٰ موجود  تھا . خدا ترسی تھی اور انتہائی اعلیٰ درجے کا اخلاقی ڈسپلن تھا . نمازیں تھیں ، روزے تھے اور زبان پر الله تعالیٰ کا نام تھا اور اسی لامحدود ذات کے آگے دعائیں اور التجائیں کی جا رھی تھیں


 


ویسے تو صاف دیکھنے میں کفر کا پلہ بھاری تھا . حضور اکرم ( صل الله علیہ وسلم ) نے الله رب العزت کے آگے بڑے درد دل کے ساتھ دعا مانگی اور عرض کی کہ اے باری تعالیٰ ، میں اپنی ساری پونجی ان بےسروسامان مجاہدوں کی صورت میں نذر کرنے کے لئے تیرے دربار میں لے آیا ھوں، آج اگر یہ ختم ھو گئے تو روۓ زمین پر نام لینے والا کوئی بندہ پھر باقی نہ رھے گا. چنانچہ آپ ( صل الله علیہ وسلم ) کی دعا بارگاہ رب العزت میں قبول ھوئی


 


 الله تعالیٰ نے پہلے تین ھزار ، پھر پانچ ھزار خاص فرشتوں کا لشکر مسلمانوں کی مدد کے لئے اتارا . دیکھتے ہی جنگ کا پانسا پلٹ کر رہ گیا اور کافروں کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا . ان کے ستر آدمی جن میں گیارہ بڑے بڑے سردار بھی تھے ، مارے گئے اور ستر آدمی مسلمانوں نے قید کر لئے . باقیوں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی. اس سے کافروں کی کمر ٹوٹ گئی اور اہل و ایمان کے حوصلے بڑھ گئے . اسلام کی تاریخ میں جنگ بدر کو فیصلہ کن اور تاریخ ساز حیثیت حاصل ہے بلکہ پوری نسل انسانی کی قسمت کا انحصار اس جنگ پر تھا . بعد میں ہونے والی فتوحات بھی اسی فیصلہ کن معرکے کی مرہون منّت ہیں


 


اس جنگ میں حضور اکرم ( صل الله علیہ وسلم ) کے دو معجزات خاص طور پر قابل ذکر ہیں . جب آپ ( صل الله علیہ وسلم ) نے کافروں کا پلہ بھاری دیکھا تھا تو ریت اور کنکریوں کی مٹھی بھر کر ان کی طرف پھینکی جو دشمن کے ہر آدمی کی آنکھوں میں پڑ گئی اور اسے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا . الله رب العالمین نے اس کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ وہ ریت آپ ( صل الله علیہ وسلم ) نے جو پھینکی ، تو وہ آپ نے نہیں پھینکی بلکہ الله تعالیٰ نے پھینکی


 


دوسرا واقعہ نبی اقدس ( صل الله علیہ وسلم ) کے چچا حضرت عباس ( رضی الله عنہ ) کا ہے جو اس وقت  مسلمان نہیں تھے اور جنگ بدر میں کافروں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک تھے اور قیدی بن کر رہ گئے تھے . فدیہ دے کر رہا ہونے کے سلسلہ میں اپنی ناداری کا عذر پیش کیا تو حضور اقدس ( صل الله علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ چچا جان ، مکّہ سے چلتے وقت آپ نے کچھ چاندی وغیرہ مکان میں دفن کر کے میری چچی کو کہا تھا کہ اگر میں جنگ میں مارا گیا اور زندہ واپس نہ آ سکا تو یہ مال و زر میرے بیٹوں کو دے دینا


 


یہ بات سن کر نبی کریم ( صل الله علیہ وسلم ) کے چچا ( حضرت عبّاس رضی الله عنہ) حیران و پریشان رہ گئے کیونکہ اس وقت وہاں کوئی تیسرا شخص موجود نہ تھا جب وہ اپنی بیوی کو نصیحت کر رھے تھے


 


اس جنگ کے اثرات اور نتائج ایسے تھے کہ اس عظیم فتح کے بعد رسول الله ( صل الله علیہ وسلم ) کا دشمنوں پر رعب اور دبدبہ قائم ھو گیا . مشرکین مکّہ کے گھر میں صف ماتم بچھ گئی . الله رب العالمین نے اسے یوم الفرقان یعنی فیصلہ کن جنگ قرار دیا اور یہ سب کچھ بلاشہ تائید ربانی کا نتیجہ تھا


 


میرے مزید بلاگز پڑھنے کے لئے میرے لنک کا وزٹ کیجے


http://www.filmannex.com/NabeelHasan/blog_post


پڑھ کر شئیر ضرور کیجئے گا . شکریہ


 


 


بلاگ رائیٹر


نبیل حسن 



About the author

RoshanSitara

Its my hobby

Subscribe 0
160