سکندر اعظم

Posted on at


وقت کا مورخ اگر ازمناۓ قدیم کے فاتحین کا ذکر کرے تو یہ داستان سکندر اعظم کے نام کے بنا ادھوری محسوس ہوگی.یونان سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان جنگجو کو فاتح عالم کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے .محض ٣٣ سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملنے والے اس بہادر بادشاہ نے تقریبا ١٠ لاکھ مربع میل کا رقبہ فتح کرکے تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کے لئے امر کروا لیا .سکندر پوری دنیا پر اپنی فتوحات کا جھنڈا لہرانا چاہتا تھا مگر موت نے اس کو مزید مہلت نہ دی .اور وہ پوری دنیا کو تسخیر کرنے کا خواب  دل میں ہی لئے اس دنیا سے رخصت ہو گیا 



سکندر اعظم ٣٥٦ قبل مسیح میں مقدونیہ کے دار الحکومت پیلا میں ٢١ جولائی کو پیدا ہوا .اس کے باپ کا نام فلپ دوم تھا جو غیر معمولی بصیرت کا حامل ایک ذہین شخص تھا اس نے اپنے ملک کے فوج میں نظم و ضبط اور تنظیم پیدا کی اور اس کو مضبوط اور طاقت ور قوت میں ڈھال دیا .اس فوج کو اس نے یونان کے شمالی علاقہ جات پر قبضہ کرنے کے لئے استمعال کیا اس کے بعد فلپ نے جنوب کی جانب پیش قدمی کی اور یونان کے زیادہ تر حصہ پر قبضہ کر لیا .اس کا ارادہ ایران پر حملہ کرنے کا تھا مگر ٤٦ برس کے عمر میں اسکا قتل کر دیا گیا 



سکندر جب تخت نشین ہوا تو اسکی عمر محض ٢٠ برس کی تھی مگر ارسطو جسے استاد کی صحبت نے اسکو مختلف علوم و فنون میں طاق کرکے اسکی سوجھ بوجھ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا تھا .ارسطو نے اسکو فلسفہ ریاضی اور اخلاقیات جیسے علوم کی تعلیم دی تھی اس لئے سکندر کو تخت سمبھالنے کے بعد زیادہ دشواری پیش نہیں آیی .جو علاقے فلپ فتح کر چکا تھا اسکی موت کے بعد اسکے تسلط سے آزاد ہو گئے تھے مگر سکندر نے صرف ٢ سال کے عرصے میں ان علاقہ جات کو پھر سے فتح کر لیا .اس کے بعد اس نے ایران کی فتح کا ارادہ کیا



ایرانی سلطنت اس زمانے میں دنیا کی طاقتور ترین سلطنتوں میں شمار کی جاتی تھی اور ٣٣٤ قبل مسیح میں جب سکندر نے ایران پر حملہ کیا تو اس کے ساتھ صرف ٣٥ ہزار فوج تھی اگرچہ یہ تعداد ایرانی فوج کے مقابلے میں نہایت کم تھی مگر اس نے ایرانی فوج کو پے در پے شکست سے دو چار کیا یہی وجہ ہے کہ اسکو تاریخ کا سب سے بڑا جنگجو کہا جاتا ہے .ایک جگہ محاصرے کے دوران اسکو شاہ ایران کی طرف سے پیشکش موصول ہوئی کہ اگر سکندر اس سے امن مواعہدہ کر لے تو وہ اسکو اپنی آدھی سلطنت دینے کو تیار ہے سکندر کے ایک سالار پلیمنو کو یہ بات فایدہ مند معلوم ہوئی اور اس نے کہا کہ اگر میں سکندر ہوتا تو یقینا قبول کر لیتا تو سکندر نے جواب دیا کہ میں بھی قبول کر لیتا اگر میں پلیمنو ہوتا. ١٣٣ ق م  میں اس نے اربیلہ کے مقام پر ایرانی فوجوں سے فیصلہ کن جنگ لڑی اور ان کو مکمل طور پر شکست سے دو چار کیا



صرف ٢٤ سال کی عمر میں سکندر نے مصر کا ملک بغیر جنگ لڑے فتح کیا اور فرعوں کا تاج پہن کر خود کو دیوتا کہلوایا .اس کے بعد اس نے افغانستان کا رخ کیا ور وہاں سے ہندوکش کے راستے ہندوستان میں داخل ہو گیا .مغربی ہندوستان میں اس نے متعدد جنگیں لڑیں اور سبھی میں فتح حاصل کی اس کے بعد اسکا ارادہ مشرقی ہندوستان کو فتح کرنے کا تھا مگر اسکی فوج کے عسکری مسلسل کشت و خون سے تنگ آ چکے تھے انہوں نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا .چناچہ سکندر کو واپس لوٹنا پڑا .واپس لوٹتے ہوے٣٢٣ ق م میں  بابل کے مقام پر سکندر پر بیماری کا حملہ ہوا اور صرف ١٠ روز کے اندر انتقال کر گیا .یوں یہ عظیم فاتح جو ساری زندگی ناقابل تسخیر رہا موت کے ہاتھوں شکست کھا گیا 



 


سکندر کو تاریخ کا اگر ایک ڈرامائی کردار کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا .اپنی ١١ سالہ فوجی زندگی میں اس نے ایک بار بھی شکست کا منہ نہیں دیکھا .وہ دنیا فتح کرنا چاہتا تھا مگر موت نے مہلت نہ دی .مورخین لکھتے ہیں کہ اگر سکندر زندہ رہتا تو شاید دنیا کی تاریخ آج مختلف ہوتی 



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160