سخاوت کی اہمیت

Posted on at


سخاوت کا مفہوم یہ ہے۔ کہ انسان اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر ضرورت مندوں کی مدد کرےان سے بدلے      ۔کی امید نہ رکھے اور نہ اس کا مقصد دکھاوا نہ ہو



اللہ کا ارشاد ہے کہ


کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے تو اسے اس کے لئے کئی گناہ کر دے۔ اسلام کے دو سب سے اہم رکن نماز اور زکوۃ ہیں۔ زکوۃ کی امن روح یہی سخاوت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں اخلاقی تعلیم کی اہمیت بالکل بنیادی ہے۔ اسی سخاوت اور فیاضی بندوں کے ہر حقوق کی اساس ہے۔ جب تک کسی میں یہ وصف پیدا نہ ہوگا اس میں اپنے ہم جنسوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا جذبہ نہ ہوگا۔ اسی لئے اسلام نے زکوۃ کو فرض کرکے انسان کے اسی جذبے کو ابھارا ہے ۔             


    ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے ۔


اللہ کے نیک اور خدا ترس بندے وہ ہیں۔ جو اس کی محبت میں مسکین، یتیم  اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اور ان سے کہتے ہیں۔ کہ ہم اللہ کی خاطر تمہیں کھانا کھلا رہے ہیں اور ہم تم سے کسی شکریے یا بدلے کے طلب گار نہیں ۔ ام المومینین حضرت خدیجہ ؓ  عرب کی سب سے زیادہ مالدار خاتون تھیں۔ لیکن آپؓ کی ساری دولت اسلام کی تبلیغ کے لئے خرچ ہوئی۔ مکہ کی پر خطر زندگی میں حضرت خدیجہ ؓ  ، حضرت ابو بکر ؓ اور دوسرے مال دار مسلمانوں نے بہت سے غلاموں کو کافروں سے خرید کر آزاد کیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی بہت سی رقم کئی موقعوں پر اسلام کی راہ میں خرچ کی ۔ ایک جگہ سخاوت کے بارے میں اس طرح سے بیان ہوا ہے۔


 آپؐ نے فرمایا کہ


اے ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال میرا مال حالانکہ اس کے مال کی حقیقت اس کے سوا اور کیا ہے۔ کہ جو کھا لیا وہ ختم ہو گیا، کہ جو پہن لیا وہ پرانا ہوگیا البتہ جو صدقہ دیا وہ بچالیا۔ ایک مرتبہ رسول اللہؐ نے ابوذر غفاری سے کہا کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرے دن تک اس میں سے ایک اشرفی بھی میرے پاس رہ جائے تو میں چاہوں گا کہ اس کو اللہ کے بندوں میں دائیں بائیں اور اگے پیچھے بانٹ دوں۔


 ہمیں چاہیئے کہ


کہ انسانی برادری کے ہر فرد کی ضرورت کو اپنی ضرورت کیطرح محسوس کریں۔ اور سخاوت اور فیاضی سے کام لیتے ہوئے اللہ کے راستے میں خرچ کریں۔ جو شخص روزجزا کے فائدہ کا خیال نہ کرے اور اللہ کی راہ میں اپنی کوئی چیز خرچ نہیں کرتا وہ کفر کے قریب پہنچ جاتا ہے۔


 



160