غربت ایک طعنہ کیوں

Posted on at


ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں۔ وہاں یہ اکثر ایسی چیزیں ہیں جنہیں انسان غور کرے تواسے پتا چلتا ہے۔ کہ کیا غلط ہے اور کیاصیح۔ میرے  خیال سے میں جس معاشرے میں رہتا ہوں اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہاں پر انسان کوئی قدرنہیں ہے۔ اگر  قدر ہے تووہ صرف مال ودولت کی،اچھی گاڑی کی،اس کے شان دار گھر کی، اس کے بینک بیلنس کی،اس کے اچھے لباس کی،اس معاشرے کی سب سے بڑی بات یہ ہے۔ کہ یہ انسان کی شناخت اس کی شخصیت سے نہیں بلکہ اس کے لباس سے کرتی ہے۔ میں خود بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہوں اسی رنگ میں رنگا ہوا ہوں۔


امیری اور غریبی انسان کے اپنے بس میں  تو ہے نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالی کی تقسیم ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے بے نیاز عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے تھوڑا کم عطا کرتا ہے۔ لیکن یہ بھی اس کی حکمت ہے۔ ہمیں ہر حال میں اس کی نعمتوں کا شکر گزار ہونا چاہیئے۔ لیکن ہمارا یہ معاشرہ بڑا ظالم ہے۔ یہ ان چیزوں کو نہیں دیکھتا ۔ غربت ایک طعنہ بن کر رہ گئی ہے۔ غریب آدمی کیلئےیہ دنیا ایک عزاب بن کر رہ گئ ہے۔وہ نہ تو کھل کر جی سکتا ہے اور مرنا تو ویسے بھی حرام ہے ۔ اس کیلئے زندگی کا گھیرا اس قدر تنگ کردیا جاتا ہے ۔ کہ آخر کار اسے اپنی زندگی کو ختم کرنا پڑتا ہے ۔ کہ شاید اگلے جہاں میں ہی اسے چین ہو۔ لیکن ایسا ہونا نہیں چاہیئے۔


کسی کو  طعنہ دینے سے پہلے انسان کو کم سے کم اتنا سوچ لینا چاہیئے۔ کہ اسے عطا کرنے والا اور غریب کا رب ایک ہی ہے ۔ وہ یہ سب اس سے چھین کر اس غریب کو بھی عطا کرسکتا ہے اور وہ رب کی ذات ایسا کرے تو اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ اگر غریب کی بیٹی جوان ہے تو اسے غربت کا طعنہ دے کر اس سے کوئی رشتہ نہیں کرتا ۔ اور اگر جوان بیٹا ہے تو بھی اس سے یہی سلوک کیا جاتا ہے ۔ کم سے کم ہمیں اس نظام کو بدلنا ہے ۔ اگر امیر ہیں تو شکرادا کریں ۔ اور اگر غریب ہیں تو بھی صبر کے ساتھ زیادہ شکر ادا کریں ۔ لیکن کسی کو حقیر نظر سے مت دیکھیں وہ بھی اس دنیاوی چند پیسوں کی خاطر ہوسکتا ہے اس کا مقام ہم سے


بڑا ہو۔        



About the author

160