جنگ احد

Posted on at


جنگ احد

 

ماہ شوال سن ٣ ہجری کا دور تھا جب جنگ احد کا معرکہ پیش آیا . مشرکین مکّہ جو بدر کے میدان میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے بے چین تھے ، اس دفعہ تین ھزار آدمیوں کا لشکر لے کر جو ہر طرح کے جنگی اسلحہ اور ساز و سامان سے لیس تھا ، مدینہ منورہ پر ایک مرتبہ پھر سے حملہ آور ہوۓ مدینہ منورہ کے شمال میں قریبا چار میل کے فاصلے پر ایک پہاڑ ہے جسے جبل احد کہا جاتا ہے . یہ جنگ اسی پہاڑ کے دامن میں لڑی گئی تھی ، اسی لئے جنگ احد کے نام سے اس جنگ کو یاد کیا جاتا ہے اور تذکرہ کیا جاتا ہے کفار کو مسلمانوں کے مقابلے میں تعداد اور جنگی ساز و سامان میں بدر کی طرح واضح طور پر دوبارہ سے برتری حاصل تھی . کافر کی فوج کی تعداد ٣ ھزار کے لگ بھگ تھی اور مسلمانوں کا لشکر صرف اور صرف سات سو کی تعداد تک محدود تھا

 

مدینہ منورہ سے حضور اکرم ( صل الله علیہ وسلم ) ایک ھزار کا لشکر لے کر کافروں کا سامنا کرنے گئے تھے مگر منافقوں کا سردار عبد الله  بن ابی ایک ھزار کی جمعیت میں سے اپنے تین سو ساتھی لے کر الگ ھو گیا اور واپس چلا گیا . اس نے الگ ہونے کا بہانہ یہ بنایا تھا کہ رسول الله ( صل الله علیہ وسلم ) میرے  مشورے پر عمل نہیں کیا . یوں مسلمانوں کی تعداد ایک ھزار سے کم ھو کر سات سو رہ گئی اور منافقوں کے اس فرار سے بھی مسلمانوں کے لشکر کے مورال کو فطری طور پر نقصان پہنچا اور برا اثر پڑا .

 

جبل احد کے پاس ایک چھوٹی سے پہاڑی ہے جسے جبل عینین کے نام سے یاد کیا تھا اور جس کا نام وادی قناہ بھی ہے ، نبی کریم ( صل الله علیہ وسلم ) نے محسوس کیا کہ اس وادی کی طرف سے دشمن اچانک حملہ کر سکتا ہے اس لئے آپ نے عبد اللہ بن جبیر ( رضی الله عنہ ) کی سرکردگی میں پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ وہاں مقرر فرما دیا اور سختی کے ساتھ ہدایت فرمائی کہ اس جنگ میں چاہے مسلمانوں کا پلڑا بھاری نظر آئے یا کافروں کا ، تم نے اس جگہ سے نہیں ہلنا اور نہ ہی یہاں سے جانا ہے . اب باقی مجاہدین کی تعداد رہ گئی ساڑھے چھ سو ( ٦٥٠ ) ، جو سرکار دو عالم ( صل الله علیہ وسلم ) کی سرکردگی میں کفار کے لشکر کے ساتھ مقابلہ کے لئے صف آرا ہوۓ

 

جب عام جنگ شروع ھوئی تو کفار کی جانب سے ابو سفیان جو سردار تھا لشکر کا ، اپنے گھڑ سوار فوج کو آگے بڑھایا . یہ ترکیب دراصل ابو سفیان کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کا الله تعالیٰ کے حبیب ( صل الله علیہ وسلم ) نے پورا فائدہ اٹھایا اور وہ اس طرح کہ حضور اکرم ( صل اللہ علیہ وسلم ) نے فورا تیر اندازوں کے دستے کو تیر برسانے کا حکم دے دیا . جب تیروں کی بارش ھوئی تو پیادے اور گھوڑے تیروں کی وجہ سے زخمی ہونے لگے اور اپنے ہی سواروں کو گرانے لگ گئے اور پیدل فوج کو روندتے ہوۓ بھاگنے لگے . قریش شکست کھا کر پیچھے کی  ہٹنے لگے اور مسلمانوں کا پلہ بھاری نظر آنے لگا . دشمن کی فوج کا ڈسپلن اور ترتیب سب کچھ بکھر کر رہ گیا اور وہ ہراساں ھو کر اپنی جانیں بچا کر اور سامان چھوڑ کر بھاگ رھے تھے

 

جنگ میں اس ابتدائی فتح کو کامل بنانے کی بجاۓ مسلمان سپاہیوں نے سامان غنیمت سمیٹنا شروع کر دیا . یہ اب کی بار مسلمانوں کی طرف سے غلطی ھوئی . وادی قناہ میں متعین تیر اندازوں نے جب یہ دیکھا تو وہ بھی حضور اکرم ( صل الله علیہ وسلم ) کے حکم کی پرواہ نہ کرتے ہوۓ اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے . اس طرح عبد الله بن جبیر ( رضی الله عنہ ) کے ساتھ صرف چھ یا سات سپاہی ہی رہ گئے .

 

خالد بن ولید نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا . وہ بڑے بہادر اور شجاع تھے . اس وقت کافروں کی فوج میں شامل تھے . انہوں نے جب وادی قناہ کے درے کو تقریبا خالی دیکھا تو اپنی فوج کے دستے کے ساتھ آٹھ میل کا چکر کاٹ اس درے کے منہ پر پہنچے اور شدید حملہ کیا . عبد الله بن جبیر ( رضی الله عنہ ) اور ان کے ساتھیوں نے بڑی بے جگری کے ساتھ مقابلہ کیا مگر شہید ھو گئے . خالد بن ولید کا دستہ اسی  راستے سے گزر کر حملہ آور ہوۓ تو مسلمانوں کی فوج میں بھگڈر مچ گئی . یہ صورتحال دیکھ کر کافروں کی فوج جو کہ شکست کھا کر بھگ رہی رھی تھی ، پھر سے واپس لوٹی اور بچی کھچی طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوۓ . مسلمانوں نے بھی حملہ کر دیا اور نہایت سخت قسم کا مقابلہ ھوا

 

کچھ کے مطابق مسلمانوں کا پلہ بھاری نہ رہ سکا اس دفعہ ، اور بعض کے مطابق جنگ برابری پر اختمام پزیر ھوئی . مگر مسلمانوں کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا . ستر ( ٧٠ ) صحابہ اکرام نے جام شہادت نوش کیا اور بے شمار زخمی بھی ہوۓ . حضور اکرم ( صل الله علیہ وسلم ) خود بھی زخمی ہوۓ اور آپ کے دندان مبارک شہید ہوۓ

 

حضور کریم ( صل الله علیہ وسلم ) کے چچا حضرت حمزہ ( رضی الله عنہ) بھی اس جنگ میں شریک تھے . شہید ہوۓ اور سید الشہدا کا خطاب پایا . حضرت حمزہ ( رضی الله عنہ ) کی شجاعت کا عالم یہ تھا کہ آپ بغیر زرہ بکتر کے جنگ لڑا کرتے تھے . انہوں نے جنگ بدر میں بڑے بڑے کافروں کے سرداروں کو جہنم رسید کیا تھا . جن میں سالار لشکر ابو سفیان کے قریبی رشتہ دار بھی تھے . چنانچہ ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے ایک غلام وحشی نامی کو بڑے انعام و کرام کا لالچ دیا کہ وہ حضرت حمزہ کو قتل کر ڈالے . نیز اس غلام کے مالک مطعم بن جبیر نے بھی اسے اس کام کے عوض آزاد کرنے کا وعدہ کیا . الله رب العالمین کا کرنا کچھ یوں ھوا کہ حضرت حمزہ ( رضی الله عنہ ) وحشی کے ہی ہاتھوں شہید ہوۓ . ہندہ نے ان کا مثلہ کیا یعنی کہ ناک ، کان اور جسم کے دیگر حصّوں کا ہار پرو کر اپنے گلے میں ڈالا اور ان کا جگر نکال کر چبا لیا اور پھر اپنے اس فعل پر بہت خوشی کا اظہار بھی کیا تھا

 

بہرحال اس جنگ میں حضرت محمّد مصطفیٰ ( صل الله علیہ وسلم ) کے حکم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو نہ قابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا

 

میرے مزید اسلامک اور معلوماتی بلاگز کو پڑھنے کے لئے میرے لنک کا وزٹ کیجئے

http://www.filmannex.com/NabeelHasan/blog_post

بلاگ پڑھ کر بز کو ضرور کلک کیجئے گا

الله حافظ

 

 

بلاگ رائیٹر

نبیل حسن 



About the author

RoshanSitara

Its my hobby

Subscribe 0
160