ڈسپلن کے نام پر منمانی۔۔۔۔۔۔۔﴿یونیفارم کی رٹ﴾

Posted on at


ہم اور آپ سکول اور کالج یونیفارم کا تو سنتے ہی رہتے ہیں بلکہ سکول اور کالج کے دور میں پہنا بھی ہوا ہے۔ لیکن کبھی آپ نے یہ سنا ہے کہ کسی یونیورسٹی لیول کا کوہی خاص یونیفارم ہےإ یقیناٴ نہیں سنا ہو ہو گا۔ لیکن پاکستان ہے اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور ایسا ہی کچھ بواہز ڈگری کالج ہریپور میں ہو رہا ہے۔ ًایف اےً اور ًایف ایس سیً کے طالب علموں کی حد تک تو بات مانی جاتی ہے کہ ان پر کالج یونیفارم کا دباو ڈالا جا سکتا ہے۔ لیکن ًبی ایسً اور ًایم ایس سیً یعنی یونیورسٹی لیول کے طالب علموں پر دباو تو نہیں بلکہ ایسا جیسے کوہی فیصلہ مسلط کیا رہا ہے، ایسا کیوں؟۔

روز صبح کالج گیٹ پر بچوں کی طرح لڑکے اور لڑکیوں کا یونیفارم چیک کیا جاتا ہے اور سفید کپڑوں کے علاوہ کسی طالب علم کو اندر جانے کی اجازت نہیں اور وہ کالج گیٹ کے گیٹ کیپرسے ہی واپس کر دیا جاتا ہے کیوں کے یہ حق کالج گیٹ کیپر کو دیا گیا ہے صرف سفید کپڑوں والا کوہی بھی لڑکا اندر آسکتا ہے باقی کوہی طالب علم نہیں۔ واہ جی۔إ آجکل کہ حالات میں سکول اور کالجز کے اندر جانے سے پہلے اپنی شناخت کرواہی جاتی ہے یعنی کالج کارڈ یا قومی شناختی کارڈ چیک کیا جاتا ہے پر یہاں ایسا کچھ نہیں صرف سفید یونیفارم سے ہی آپ کی شناخت ہونی چاہیے باقی وہ طالب علم ہے یا کوہی اور اس بات سے کسی کو کوہی لینا دینا نہیں اور وہ بغیر کسی پوچھ گچھ کے کالج میں جا سکتا ہے۔ پر اگر کوہی طالب علم بغیر سفید کپڑوں کے آگیا تو اسے اندر آنے اجازت نہیں، چاہے اس کا کوہی اہم لیکچر ہی کیوں نہ خطا ہو جاہے۔اور اس معاملے میں نام ڈسپلن کا چلتا ہے۔ باقی کالج میں کیا ہو رہا ہوتا ہے کسی کو پرواہ نہیں، کلاسز کی اوقات میں گراونڈ میں کھیلا جاسکتا ہے، فضول کی مٹرگشت کی جاسکتی ہے

ادھر ڈسپلن گھاس چرنے چلا جاتا ہے؟ کون سا ٹیچر کلاس لے رہا ہے اور کون سا نہیں، کیا پڑھایا جا رہا ہے اور کیسے پڑھایا جارہا ہے، امتحانات کیسے ہو رہے ہیں، اور نمبر کس طرح دیے جا رہے ہیں؟ کیا کسی کے ساتھ نمبروں میں زیادتی یا فیور تو نہیں کی گہیِ۔ ان سب باتوں کا کوہی سروکار نہیں اور نہ ہی چند کے علاوہ کسی کو اس بات کا احساس ہے۔بس اہم ہے تو سفید یونیفارم۔۔۔إ

سفید کپڑا پہننا سنت ہے پر شرط کہ وہ پاک ہو۔ اور یہ رنگ ایسا ہے اسے بہت سمبھالنے کی ضرورت پڑھتی ہے نہیں تو یہ جلدی گندا ہو جا تا ہے۔ اور کالج دور میں ایک یونیفارم زیادہ سے زیادہ سے ۳ دن چلتا ہے اور اسی طرح پورے ہفتے کیلیے بھی ۳ یونیفارم کی ضرورت ہوتی ہے اور جیسا کی ہم سب جانتے ہیں کہ سرکاری کالجز میں تمام طلباوطلبات یا تو غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں یا مڈل کلاس کے ہوتے ہیں اور اولاد کے معاملے میں والدین تو نام ہی زمہ داری لینے کا ہوتا ہے اور غریب ہو یا امیر، چاہے جیسے بھی وہ اپنی اولاد کی خوب اچھی پرورش کرتے ہیں۔ اور یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کی اولاد کبھی دوسروں کے بچوں کو دیکھ کر اپنے دل میں کوہی بات رکھے۔ لیکن زیادہ سے زیادہ اپنی زمہ داری سمجھ کر وہ اپنی اولاد کے سمجھدار ہونے تک ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور باشعور اولاد بھی کالج دور کے بعد اگر اپنے والدین کو کما کر دینے کے قابل نہ ہو تو اپنے گھر کے حالات کو مدِنظر رکھ کر ان سے مانگتے ہوہے کچھ شرم محسوس کرتی ہے۔ اور پھر سوچنے کی بات ہے نا کہ وہ لڑکا یا لڑکی کدھر سے اتنے پیسے لاہے۔۔۔

ہم لڑکوں کے دلوں میں اکثر یہ بات آتی ہے کہ یہ صرف لڑکوں کے لیے ہی کیوں ہوتا ہے لڑکیوں کیلیے کیوں نہیں؟ لیکن اگر سوچا یا غور کیا جاہے تو عورت نام ہی ایسا ہے نام سنتے یا لیتے ہی دل میں عزت کا احساس ہوتا ہے۔ اور سوچنے کی بات ہے کہہ ایک غریب گھرانے کی لڑکی کیسے اور کہاں سے لاہے گی۔اور سب کے سامنے اسے روکا جاہے اور وجہ پوچھی جاہے تو وہ کیا جواب دے گی۔ کبھی یہ نہیں سوچا کہ دوسروں کے سامنے اسکے دل پہ کیا گزرتی ہو گی، ہر انسان کے کچھ راز ہوتے ہیں اور جنہیں وہ پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔إ

ہم دوسروں کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے بلکہ انکے راز پوشیدہ کرنے کے راستے تلاش کرتے ہیں۔لیکن جب خود پر بنتی ہے جب اپنے احساسات یا اپنے جزبات کو ٹھیس پہنچتا ہے تو تب احساس بھی ہوتا ہےاور درد بھی ہوتا ہے۔



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160