خواتین کے شرعی و قانونی حقوق اور ماشرہ کی ذمہ داری

Posted on at


انسانی معاشرہ میں جنسی افراتفری کو نظم وضبط میں ڈھالنے کے لیئے ہر دور میں دینی و دنیاوی قوانین کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ازدواجی طریقہ کار اور ضابطے کے نام کو شادی قرار دیا گیا ہے۔ یہ

مرد اور عورت کی زندگی کا سب سے اہم موڑ ہوتا ہے۔ معاشرے میں عورت کے حقوق کے تحفظ کے ضمن میں ازدواجی زندگی کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ اس حق کو تحفظ دینے کے لیئے مرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ جب وہ عورت سے نکاح کرے تو اسکا حق مہر مقرر کر دے جو ازدواجی تعلق قائم کرنے سے قبل عورت کو ادا کرنا ہوتا ہے

لیکن اسکے برعکس مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ جس طرح ہمارے مذہب کے دیگر بنیادی نکات کی حثیت مفادات کے ماتحت ہو گئی ہے، اسی طرح حق مہر کے معاملے کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ جب میاں بیوی کے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو یہ حقیقت پیدا ہو جاتی ہے، بالخصوص جب معاملہ طلاق کا ہو،تو حق مہر کی ادائیگی کا مطالبہ بیوی اور اسکے رشتہ داروں کی طرف سے زور پکڑ جاتا ہے جبکہ اسکے برعکس شوہر کا اصرار اس بات پر ہوتا ہے کہ اسنے مقررہ حق مہر کی رقم ادا کر دی ہے۔ اس تکرار میں بات بات بڑھتے بڑھتے عدالتوں تک جا پہنچی ہیں بیوی اور شوہر اپنے موقف پر مظبوطی سے ڈٹے رہتے ہیں۔ والدین کی باہمی چپقلش انکی اپنی گھر ہستی اور معاشرہ پر دور رس اثرات مرتب کرتی ہے۔

شہر کراچی کی مقامی عدالت میں مسمات افروز بانوبنت نصیرالدین نے اپنے شوہر محمد ولد محمد حنیف کے خلاف ایک عرضی دعوی دائر کیا جس میں کہا گیا اسکی شادی محمد محمود ولد محمد حنیف کے ساتھ کراچی میں ہوئی۔ فریقین کی رضا مندی سے ھق مہر کی رقم ۱۲۵۰۰ مقرر ہوئی تھی جو کہ اسکے شوہر نے ابھی تک ادا نہیں کی۔ ہمارے اردگرد بے شمار ایسے کردار بکھرے پڑے ہیں جو دانستہ معاشرتی و اخلاقی پستیوں کی تاریک غاروں میں محو سفر ہیں۔



About the author

160