سفر

Posted on at


حضرت محمدؐ جس زمانے میں سفر فرمایا کرتے تھے۔ اس وقت زمانے کے حالات اور سواریوں کے طریقے اور تھے۔ کیونکہ عرب کی زمین خشک اور پتھریلی تھی۔ پانی کی قلت، بلا کی گرمی ، دھوپ میں شدت ، قتل و غارت کی وجہ سے قدم قدم پر جان کا خطرہ ان حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے آنحضرتؐ نے سفر کے متعلق چند ہدایات کی ہیں۔  جن میں سے بعض حالات بدل جانے سے آج کے زمانے میں پابندی ضروری نہیں۔


لیکن پھر بھی جہاں اب بھی وہ حالات باقی ہیں۔ جان کا خطرہ ہو ان پر عمل کرکے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے خاص طور پر دیہات وغیرہ کے لوگ جن کو زیادہ تر پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔ صحرا اور بیابان کے راستے میں ضروریات زندگی کے وہ سازوسامان میسر نہیں آتے جن کی اسٹیشنوں اور ہوٹلوں میں بہتات ہوتی ہے۔ سفر کرتے ہوئے مسافر کو رخصت کرتے وقت اس کے لئے خیروعافیت کی دعا کرنی چاہیے۔ یعنی تمھارے دین امانت اور خاتمہ عمل کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ یہ دعا حضرت محمد ؐ فوج کو رخصت کرتے ہوئے پڑھا کرتے تھے۔ سفر زیادہ تر صبح  سویرے کرنا چاہیے اس سے انسان کا وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔اور سارا دن کام میں آجاتا ہے۔


دوسرا سفر کرنے کے بعد دوپہر میں آرام کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ تنہا سفر نہیں کرنا چاہیے بلکہ کم از کم تین آدمی کا ساتھ ہونا چاہیے ۔ جیسے آج کل کے حالات ہیں  لوٹ مار عام ہے اکٹھے سفر کرنے سے تھوڑا حوصلہ بڑھتا ہے۔ اور حالات پر قابو پانے میں مدد ملتی  ہے ۔ مال و اسباب کی نگرانی میں سہولت ملتی ہے۔ اگر کوئی پیارا یا زیادہ عزیز سفر سے واپس آئے تو اسکا استقبال کرنا چاہیے۔


ویسے بھی سفر سے آنے کے فوراَ ساتھ ہی گھر میں داخل نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ گھر والوں کو تیاری کا موقع دینا چاہیے۔ اسلام نے سفر کرنے کے لئے دو مناسب وقتوں کا مشورہ دیا ہے۔ صبح کا وقت اور رات کا وقت۔ سفر کرتے وقت حضرت محمدؐ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کر کے ہم بہت سی پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں۔ جب سفر کی ضرورت پوری ہو جائے تو فوراَ واپس آجانا چاہیے۔ کیونکہ سفر ہر حال تکلیف اور بے اطمینانی کی چیز ہے۔              



160