کہی سالوں میں اور اب تک اہل وطن کو جن مساہل اور مشکلات کا سامنہ کرنا پڑھ رہا ہے دہشت گردی ان سب میں سے اول نمبر پر نمایاں ہے۔ اس کے نتیجے میں ہی امن و امان کی وہ صورتحال بری طرح متاثر ہوہی ہے جو صنعتی ترقی اور معاشی استحکام کیلیے ناگریز تصور کی جا تی ہے اگرچہ اس مسلہ کے ڈانڈے گزشتہ﴿پرویز مشرف﴾ کی حکومت کے فیصلوں سے جا کر ملتے ہیں۔ جب ملکی سلامیت اور قومی وقار کو پس پشت ڈالتے ہوہے غیر ملکی عسکری مفادات کا تحفظ کیا گیا اور یہ حقیقت فراموش کرد ی گہی کہ دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان اپنی جغرافیاہی پڑوسی نلک تبدیل نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی کسی غیر ملکی طاقت کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ ًایٹمی پاکستانًکو ڈکشن دے سکے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کی جان ومال کو محفوظ بنانے اور قومی وقار کے تحفظ کی خاطر حقیقت پسندی اور دانشمندی کے ساتھ رفت کی جس کے نتیجے میں آخر کار پاک سرزمین سے غیر ملکی عسکری اثرونفوذ کا خاتمہ ممکن ہوا۔ اس سلسلے میں شواہد ہی کافی ہیں کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد واشنگٹن کی طرف سے معافی مانگی گہی۔
شمسی اہربیس کو خالی کرایا گیا اور ان غیر ملکی ایجنٹوں کی فوج کو محدود کیا گیا جو اس سے پہلے ہر طرح کے قواعدوضوابط سے بالا تر ہو کر پاکستان کو اپنی چراگاہ خیال کرتے ہوہے جوق درجوق چلی آرہی تھی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی حکمت عملی اپنی معنویت، مقصد اور طریقہ کار کے تناظر میں گزشتہ حکومت سےیکسر مختلف تھے۔ اس جنگ میں شمولیت اگرچہ ناگزیر ہےلیکن اس کا داہرہ اور طریقہ کار بہرحال وطن عزیز کی قیادت کے تدبر اور بصیرت پر منحصر ہے۔ اس جنگ میں شرکت کے باعث اب تک قوم اپنے ۴۰ ہزار سے زاہد شہریوں کی قربانی دے چکی ہے اور کے علاوہ سینکڑوں لوگ زندگی بھر کیلیے محتاج ہو کر رہ گیے ہیں۔
اس جنگ کے نتیجے میں ملک کی معیشت کو کھربوں ڈالروں کا نقصان اور بوجھ برداشت کرنا پڑھ رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر نقصان یہ ہو رہا ہے کہ صنعتی ترقی و سماجی امن کے ساتھ مشروط اور مربوط ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ملک میں ان کی رفتار سست ہو کر رہ گہی ہے اور ملک پاکستان کی معیشت اور سماجی امن و سکون کو جتنا نقصان دہشت گردی سے پہنچا ہے