اگر تبدیلی لانی ہی ہے تو ہمیں اگلے قدم کے طور پر اس تبدیلی پر غور اور نئے عنوانات کو شامل کرنے کے امکانات کی فکر کرنی چاہیے۔ صرف سیکولر اور غیر سیکولر کی بحث میں پڑ کر آنے والی نسلوں کو اپنی طرح مقروض، بدحال اور کمزور بنائے رکھنے پر اصرار سے دستبردار ہونا چاہیے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ نصاب کے معاملے میں کھلی بحث کو فروغ دیا جائے، کسی ایک گروپ کے پریشر کو دیکھ کر فیصلے تبدیل نہ کئے جائیں۔ ان لوگوں کو بھی دعوت دی جائے جو نصاب میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں اس بارے میں کوئی طریقہ کار وضع کر سکتی ہیں۔ جب مذہبی لوگ نصاب میں تبدیلی کو اس خدشے کی بنا پر مسترد کرتے ہیں کہ اسے سیکولر بنایا جا رہا ہے۔
تو روشن خیال لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ کیا واقعی یہ تبدیلیاں اسے کوئی سمت دے بھی رہی ہیں یا ایسے ہی شعور مچایا جا رہا ہے۔ قومی صطح پر ماہرین، اساتذہ اور دانشوروں کا ایسا گروہ تشکیل دیا جائے جس میں مختلف مذہبی اور سیاسی مکتبی فکر کے نمائندہ افراد موجود ہوں۔ نصاب میں تبدیلیوں کی تجاویز تیار کی جائیں، انہیں عوام کے مطالعے اور آرام کے لیے مشتہر کا جائے۔ اسے مونچھ اور داڑھی کا مسئلہ نہ بنایا جائے بلکہ قومی تقاضوں کے پییش نظر زیادہ سے زیادہ جمہوری اقدامات کئے جائیں۔