(قرآن کا نظریہ عدل اور اسلامی دنیا (حصہ دوم

Posted on at


عدل قرآن کی ایک کلیدی اصطلاح بن گئی اور اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام عادل ہے۔ قرآن کے مطابق متّقی ہونے کے لیے عادل ہونا ضروری ہے۔ ایک حقیقی عبات گزارنے کے لیے عادل ہونا لازم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود عادل ہے۔ قرآن میں ‘‘عدل’’ ایک بہت وسیع اصطلاح ہے۔ عربی میں ‘‘عدل’’ کا مفہوم توازن اور عدم زیادتی ہے۔ لہٰذا مجموعی طور پر زندگی کے تمام معاملات میں توازن قائم رکھنا چاہیے، چاہے وہ سماجی معاملات ہوں، معاشی، ازدواجی یا روحانی۔


 


نظریہ عدل کا مطلب ہے کہ کسی بھی شعبہ زندگی میں، بشمول روحانی زندگی کے، کوئی انتہا پسندی نہیں ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ کہ اسلام میں رہبانیت کی ممانعت ہے کیونکہ اس سے دنیاوی اور روحانی زندگی میں عدم توزن واقع ہو جائے گا۔ حضورؐ نے باوجود ایک روحانی شخصیت ہونے کے، جس کی وجہ سے صوفیوں میں ان کی بے انتہا تکریم ہے، دنیا کو تج نہیں دیا۔ انہوں نے معاشرہ میں رہتے ہوئے اس کو تبدیل کیا۔ انہوں نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں عدل کی بنیاد پر انقلاب برپا کیا۔ ڈبلیو سی اسمتھ کے مطابق حضورؐ کا انقلاب، کمیونسٹ انقلابات سے قبل، دنیا کا سب سے منظّم انقلاب تھا۔


 


قرآن کے بھرپور نظریہ عدل کا اطلاق تمام شعبہ ہائے زندگی پر بشمول ازدواجی تعلقات کے ہوتا ہے۔ اسلام میں کثرت ازواج کی اجازت غیر مشروط طور پر نہیں دی گئی اور اس ضمن میں سب سے اہم شرط تمام بیویوں کے درمیان انصاف کی تھی۔ قرآن کی ایک صورت میں کہا گیا ہے۔ ’’اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو تم صرف ایک شادی کرو۔‘‘


 


یہ ظاہر ہے کہ عدل، ازدواجی زندگی میں بھی ایک بنیادی اور اہم شرط ہے۔ مسلم فقہاء نے کثرت ازدواج کے ضمن میں کہا ہے کہ ازواج کے درمیان انصاف قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم نہ صرف ان میں سے ہر ایک کی گزر اوقات کا بندبست کرو  بلکہ ہر ایک کے ساتھ برابر کا وقت گزارو۔ معتزلہ فقہاء کا خیال تھا کہ کثرت ازواج کی صورت میں نان و نفقہ اور ہر بیوی کو برابر وقت دینا ہی کافی نہیں بلکہ عدل کو قائم کرنے کے لیے ان میں سے ہر ایک کو برابر کی محبت بھی دینی چاہیے، ورنہ انصاف کا تقاضہ پورا نہیں ہو گا۔


 


  



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160