پاکستان کے موجودہ حالات کا ایک مختصر جائزہ اور ہماری اسلام سے دوری

Posted on at


پاکستان میں اندرون خانہ اپنے بیرونی بھگوانوں کو خوش کرنے کے لیے ریاضت اور تپسیا میں لگے رہتے ہیں۔ اس لئے یہ منافقوں کے صف اولین میں جگہ پانے کے حقدار بن گئے ہیں۔ پہلے صرف ہمارا حکمران طبقہ غریبوں کاخون چوس چوس کر اور ان کے غربت خانوں کے اوپر اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کر کے شراب و کباب اڑاتے ہیں۔ اب ان کی دیکھا دیکھی عوام کا ایک بڑا حلقہ بھی اسی لعنت و خداوندی کا شکار ہو گیا ہے۔

جب حکمرانوں کی رنگ رلیاں ، لوٹ مار اور حق تلفیاں عروج پر پہنچ گئیں تو بالآخر عوام کے ایک طبقے نے بھی اپنے حقوق بزور شمشیر حاصل کرنے کے لیے متبادل راستہ اختیار کیا۔ وہ دولت کے حصول کے لیے جائز و ناجائز کام کر کے اپنی محرومی کی پیاس بجھانے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ لیکن دوسری طرف مسلم قوم کو ان مجبور اور حالات کے مارے ہوئے لٹیروں کے ہاتھوں نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اور وہ دنیا میں رسوائے زمانہ کہلانے لگی۔ پہلے مسلم قوم کے مقدر میں روشن سہر ہوتی تھی ۔ اب وہ داغ داغ اجھالے میں گھٹن کی سانس لے کر اپنی محرومی پر خون کے آنسو بہا رہی ہے۔

ذرا سوچیے! کہ کیامیں اسلام کو بدنام کرنے کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ کیا آپ اسلام کے پیغام آفاقیت اور محبت و امن کو چاک چاک کر کے پارہ پارہ کرنے میں برابر کے شریک نہیں ہیں۔ قومیں افراد ہی سے بنتی ہیں۔ قومیں افراد ہی سے بنتی ہیں۔ جس قوم کے افراد کی دھوکہ دہی ، جھوٹ و فریب اور دولت کی لالچ کے قصے زبان زدعام ہوں۔ تو کیا دنیا والے اس کے نام کے قصیدے پڑھیں گے۔ ہر گز نہیں ۔ بلکہ وہ اس کے نام کے ہجو پڑھ کر اس پر لعن طعن کے الفاظ کے پتھر برساتے رہیں گے۔

ہماری سماج میں چوری ، فحاشی و عریانی اور ظاہری نمود و نمائش کا بازار گرم ہے۔ عورت سر پر دوپٹہ اوڑھنے کو اپنی تضحیک سمجھ کر قہری خداوندی کو گلے لگا رہی ہے۔ ٹی وی، ڈی وی ڈی پلیئر، کیبل، ڈیش اینٹیا وغیرہ پر اخلاق سوز جنسی واردات کے قصے دکھا دکھا کر لوگوں کی منشیات کی اسمگلنگ اور قتل و غارت  کے نئے نئے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ غریب نان شبینہ کے لیے در در کی ٹھوکرین کھا رہا ہے۔ جبکہ امیر نشہ شراب میں مست ہو کر سر عام زنا اور دوسرے غلط فعل سر انجام دے رہا ہے۔ کیا اس طرح کا معاشرہ قوم کی بدنامی کا مؤجب نہیں بنے گا تو کیا اس کی عظمت و بلندی کی مثال بنے گا؟

بچوں کے معماران قوم کا دعوٰی تو بلند بانگ کر دیا ہے۔ لیکن پھر اگلے ہی مرحلے میں وہ جب اسکول کا رخ کرتے ہیں۔ تو ان شاہین بچوں کو خاکبازی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ آگے چل کر جب یہ بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو اسکول کے غیر مناسب ماحول اور گھر کی چار دیواری کے اندر بے اعتدالیوں کی وجہ سے اقبال و قائد اعظم کے بجائے ندیم و ریمبو اور امیتاب و شاہ رخ خان  بننے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ اس دوران اگر ان کے خوابوں میں حد فاضل بننے کی کوشش کرتا ہے ۔ تو اس کو یقینی طور پر جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور معاشرہ کلاشنکوف کلچر کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

 

 



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160