(پینے کا صاف پانی۔۔۔۔۔۔۔ایک نایاب شۓ (حصہ دوم

Posted on at


 


واٹر بورڈ کے چیف اینجینئر کا دعوٰی خود ان کے ادارے کے مراسلے کے برعکس ہے۔ بعد ازاں لیبارٹری تجزیہ سے بخوبی ثابت ہو گیا ہے کہ مسلم آباد اور گڈاپ میں ہونے والی اموات کا سبب گندہ اور زہریلا پانی تھا۔ ان تجزیات کے مطابق مسلم آباد کے باشندے بہت عرصہ سے انسانی و صنعتی فضلہ سے آلودہ پانی پی رہے تھے۔ اس علاقے سے کراچی کی شہری حکومت نے پینے کے پانی کے جو ۲۹ نمونے حاصل کیے، ان میں سے ۲۴ کسی طور پر بھی انسانوں کے لیے قابل استعمال نہیں تھے۔ کراچی سے تقریباً ۱۰۰ میل شمال میں کوٹری کے صنعتی علاقے سے خارج کیا جانے والا آلدہ پانی کے بی فیڈر نہر میں گرتا ہے اور کراچی واٹر بورڈ کا فلٹر پلانٹ اس آلودگی کو رفع کرنے میں ناکام ہے۔


 


کراچی میں فراہمی و نکاسی آب کا نظام عرصہ سے بد نظمی، نااہلی اور وسائل کے ضیاع کا شکار ہے۔ شہر میں فراہمی و نکاسی آب کی لائنیں عموماً ساتھ ساتھ چلتی ہیں جبکہ اصولاً فراہمی و نکاسی آب کی لائنوں میں کم از کم ۳ فٹ کا فاصلہ ہونا چاہیے۔ دوسروں ملکوں میں پانی کے معیار کا تعین نل سے آنے والے پانی سے کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں سپلائی لائین میں داخل ہونے سے قبل پانی کا تجزیہ کرکے اس کو انسانی استعمال کے قابل قرار دے دیا جاتا ہے۔ معائنہ کرنے والے ماہرین کی ٹیم کو پانی کے ایسے والوز بھی دیکھنے میں آئے، جن کے بکس میں صنعتی آلودہ پانی بھرا ہوا تھا۔


 


جہاں تک نکاسی آب کا تعلق ہے تو چندوانی صاحب کا دعوٰی تھا کہ کراچی میں نو کروڑ گیلن استعمال شدہ پانی کو سمندر میں خارج کئے جانے سے قبل اس کی صفائی کی جاتی ہے لیکن اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے تخمینہ کے مطابق صرف ۱ کروڑ ۷۵ لاکھ گیلن پانی کو ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کراچی سے ملحقہ سمندری پانی بھی آلودہ ہو رہا ہے اور آبی حیات کو نہ صرف نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ جو مچھلیاں اور جھینگے ہم کھاتے ہیں، وہ بھی آلودگی سے بھر پور ہوتے ہیں۔  


 



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160