سینما گھر۔۔۔۔﴿پارٹ ۲﴾۔

Posted on at



 آجکل ہماری پاکستان فلم انڈسٹری اتنی گر گہی ہے کہ پاکستانی فلمیں بھی فیملی کے ساتھ بیٹھنے کے قابل ہی نہیں رہیں۔ اور اسی لیے خواتین و حضرات نے سینما کا رخ چھوڑ دیا اور یہی وجہ آج پاکستانی فلم انڈسٹری کی ناکامی کی بھی ہے۔ پر پھر بھی سینما کی سکرین پر عریانی کا سفر تیزی سے جاری و ساری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انڈین عوام نیم عریاں فلمیں پسند کرتے ہوں مگر ہماری عوام ایسی اخلاق سوز فلمیں نہ تو سینما میں دیکھنا پسند کرتی ہے اور نہ ہی گھروں میں بزریعہ کیبل۔


 فلم اور ڈرامے کیلیے ضروری ہے کہ اس کی کہانی حقیقت کے قریب ہو، ہمارے ڈرامے تو بہرحال کچھ حد تک بہتر ہیں اور کچھ حد تک حقیقت پر بھی مبنی ہوتے ہیں پر ہماری فلمیں کی تو بات ہی الگ ہے۔ ہماری فلموں میں نہ تو ہمارا کلچر نظر آتا ہے اور نہ ہی حقیقت۔


  ایک معروف فلم راہٹر ناصر ادیب کو ایک چینل پر بلایا گیا تھا اور ان سے اپنے کلچر کے بارے میں سوالات کیے گے تھے مگر وہ صیحح جوابات نہیں دے پاہے تھے۔ ان سے ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ آپ لوگ اپنی فلموں میں جو گانے دکھاتے ہیں کیا ایسا لباس ہمارے معاشرے میں پہنا جاتا ہے اور کیا ہمارے معاشرے کی لڑکیاں کھیتوں اور باغوں میں ناچتی اور گاتی ہیں اور وہ بھی میکسی پہن کر؟ جبکہ ہمارا قومی لباس شلوار قمیص ہے اور علاقاھی لباس دھوتی ہے مگر اب ہماری خواتین دھوتی بھی نہیں باندھتیں تو ناصر نے جواب دیا کہ ہم لوگ کہانی صرف لکھ کر دیتے ہیں ڈاہریکٹر است کیسے عکس بند کرتا ہے یہ ہمارا کام نہیں۔

       

مگر میری نظر میں گانے کی سچویشن راہٹر ہی بنا کر دیتا ہے اور یہ بھی ماننے کی بات ہے کہ گانے کی ہر فلم میں ضرورت ہوتی ہے پر یہ بھی تو ضروری ہے کہ وہ گانے ہمارے کلچر اور ثقافت پر مبنی ہوں اور اخلاق کے داہرے میں عکس بند ہونا چاہیں جو کوہی انسان بھی اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکے۔
 یہی حال ہماری پشتو فلم انڈسٹری کا ہے پشتو فلموں میں بھی گانے لڑکیوں کو میکسی، شارٹ سکرٹس اور مختصر لباس پہنا کر عکس بند کیے جاتے ہیں۔ جبکہ یہ لباس تو ہرگز پشتون کلچر کا نہیں ہے۔

 


 ہمارے گھروں میں ٹی وی تو موجود ہے پر ہم کیبل کے محتاج ہیں کیبل آپریٹرز کے رحم و کرم پر ہیں اور وہ ہمیں ایسی اخلاق سوز فلمیں اور گانے دکھا رہے ہیں جن کو ہم گھر میں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری گورنمنٹ بھی اس طرف توجہ نہیں دیتی کہ کیبل آپریٹرز لوگوں کو کیا دکھا رہے ہیں۔
 میرے خیال سے اس کی جانچ کیلیے بھی ایک سرکاری ادارہ قاہم ہونا چاہیے جو بروقت ان کے چینلز چیک کر کے عوام تک پہنچاہے۔ کیونکہ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا ۹۰٪ تک نوجوان طبقہ اس بےحیاہی کا شکار ہے اور بالکل اپنے مزہب، کلچر اور اپنی ثقافت سے دور ہوتا جا رہا ہے۔     



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160