محفل سماع، راگ رنگ اور باہمی محبت کا ذکر

Posted on at


 


ہندوستان کے لوگوں کو اس طرز زندگی نے لوگوں کی زندگی میں طرح طرح کے رنگ بھر دیئے تھے۔ ہندوستان کے لوگوں کی عقیدتوں اور محبتوں کے تمام رشتے بدلتی راتوں کے ساتھ منسلک تھے اور موسموں کے براہ راست تعلق دھرتی کے ساتھ تھا، فطرت کے ساتھ تھا، بےساختہ پن کے ساتھ تھا، قدرتی عمل کے ساتھ تھا، سچے اور کھرے انسانی جذبوں کے ساتھ تھا، لہذا ہندوستان کے لوگوں کی طبیعت میں قدرتی ثقافت جس کو لوگ ثقافت کہتے ہیں، وہ راہ پا گئی۔ اس لوک ثقافت کا عمل انسانوں کے دل و دماغ میں آرٹ اور فن کو ابھارتا ہے، سچی شاعری پیدا کرتا ہے، سچے گیت ترتیب دیتا ہے۔ یہ لوک سنگیت اور لوک گیت کسی ایک انسان کی تخلیق نہیں ہوا کرتے، یہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کا اجتماعی جذبہ بن کر گیت یا دو ہے کی شکل میں ظاہر ہوا کرتے ہیں۔ دنیا کی کوئی کتاب، کوئی شاعری انسانوں کے ان مشترکہ جذبات پر مبنی نغمگی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔


 


چونکہ تمام لوگ زمین کی کاشت سے منسلک تھے اور اس کاشتکاری کا تمام تصور موسموں کے ساتھ بندھا ہوا تھا، اس لیے دھرتی کو ہندوستان میں ماتا کہا گیا اور دھرتی کے خیال و گیت کا رنگ ہندوستان کے انسانوں کی زندگی کے ہر عمل میں راہ پا گیا۔ رقص و موسیقی اور موسمی تہوار، میلے ٹھیلے ہندوستان کے مذاہب کا حصہ بن گئے۔ ہندوستان کی تمام کلاسیکل گائیکی، موسموں اور لوک گیتوں سے پیدا ہوئی ہے۔ لوگ اچھی فصل اگنے کی خواہش میں موسموں کو دیوتا بنا کر ان کے خوشی کے گیت گایا کرتے تھے۔ اس طرح ہندوستان کا تمام عوامی کلچر ایک موسمی دیو مالائی کلچر بن گیا۔ گندم پکنے تک تمام لوگ بیکار رہتے ہیں۔ ان آزادی کے دنوں میں عوامی تہواروں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ موسم بہار میں ہولی اور بسنت کے تہوار منائے جاتے ہیں۔ ہولی کے دن ہر طرح کا رنگ ایک دوسرے پر ڈھال کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔


 


مسلمان حملہ آور اور فاتحین، ہندوستان کی ثقافت سے قطعی طور پر نابلد تھے۔ ان حملہ آوروں کی آمد سے ہندوستان کی روایتی زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئی۔ ان لشکروں کے ساتھ ساتھ مسلمان صوفیوں کی آمد کا سلسلہ بھی ہندوستان میں شروع ہو گیا۔ ان صوفیوں میں پنچاب کی دھرتی پر سب سے پہلے حضرت داتا گنج بخش کی لاہور میں آمد ہوئی۔ ان سے پہلے سندھ اور ملتان کی سرزمین پر مسلمان صوفیوں کے پاؤں پڑ چکے تھے۔ داتا صاحب کی آمد کے فوراً بعد حضرت خواجہ معین الدین چشتی ہندوستان تشریف لائے۔ ان کے ساتھ ہی خواجہ نظام الدین اولیا کا ہندوستان میں ظہور ہوا۔ سندھ کی سرزمین پر حضرت لعل شہباز قلندر نے آ کر اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔


 


یہ تمام صوفی لوگ مسلمان ممالک کے اندرونی خلفشار سے تنگ آ کر ہندوستان چلے آئے تھے اور ہندوستان کو امن و آشتی کا خطہ تصور کرتے تھے۔ لاہور تو گویا مسلمان صوفیوں کا دارالخلافہ بن گیا۔ ہمارے مسلمان صوفیوں کا مقصود ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا تھا اور زندگی انسان دوستی اور محبت کے بغیر ہی نہیں جا سکتی۔ محبت، دوستی اور پیار انسانوں کے ساتھ دلوں کے رابطے کے بغیر ناممکن ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے عوام کے ساتھ دلوں کو رابطہ سُر اور سنگیت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ ہندوستان کے لوگ ہر بات کو سُر اور سنگیت کے ساتھ سمجھنے کے عادی تھے۔ مسلمان صوفیوں نے مسلمان بادشاہوں کے مقابلے میں مختلف طرز سلوک اور طرز زندگی اختیار کیا۔ ان صوفیوں کا اسلوب خانقاہی اور خاکساری کا تھا۔ 


  



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160