مسلم معاشرے کی موجودہ حالت اور اس کی بہتری میں ہمارا کردار

Posted on at


دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کوئی شخص یہ نہیں سوچتا کہ اس کی معمولی غلطی سے بھی اس عظیم قوم کے سفید لبادے پرداغ لگ جائے گا۔ اور صرف انھی کرتوتوں کی وجہ سے قوم بدنامی کا طوق گلے میں ڈال کر اپنے صفائی کے لیے جدوجہد کرنے میں لگ جائے گی۔

لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاتھوں میں اپنی قوم کی تقدیر ہونے کے باوجود آج تک ملت کے مقدر وہ ستارے  نہ بن سکے جس کی روشنی میں کمزور کو اپنا حق پانے کی راہ دکھائی دے۔ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی قوم کے زوال میں اہم کردار ادا کر کے پتہ نہیں اپنی مسلم قوم سے کس جنم کا بدلہ لے رہے ہیں۔ ہر طرف دھنگا فساد اور گھیراؤ جلاؤ کی ہنگامہ خیزیاں عروج پر ہیں۔

امریکہ اور مغربی سمراج کے معمولی سے اشارے پر ہم اپنا سب کچھ لٹانے پر تیار رہتے ہیں۔ پہلے انگریز ہماری خارجہ پالیسی بناتے تھے اب امریکہ نے یہ کارخیر اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ اس مغربی سامراج کے پاس ہماری زندگیوں کی چڑیاں ہیں۔ ہم ادھر معمولی سر ہلانے کی کوشش کرتے ہیں ادھر وہ ہمارا گلہ دبا کر ہمیں ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتےہیں۔ اس مغربی تہذیب نے ہمیں کلاشنکوف کلچراور منشیات کلچر جیسے تحائف سے نوازا ہے۔ مخلوط نظام تعلیم دیا اور سب سے بڑھ کر یہ مسلم قوم کے بچے بچے کو بے غیرت اور بے ایمان بنانے کے لیے بغیر کشتی کے فحاشی و عریانی کے بحرالکاہل میں دھکیل دیا گیا۔

اسلام نے عورت کو عظیم مرتبہ عطا کر کے اس کو بہن، بیوی، ماں اور بیٹی جیسے پر خلوص نام دیے۔اور جنت کو ایک ماں کے قدموں کے نیچے قرار دیا۔ لیکن ہم نے مغرب کی جدیدیت اپنانے کی کوشش کی تو عورت ان تمام مقدس رشتوں کو طاق پر رکھ کر بغیر چادرودوپٹہ کے بازاروں میں آگئی۔ اور فتنہ دوراں بن گئی۔ اسلام نے حیاء کو نصف ایمان قراد دیا، لیکن آج کل جو عورت پردے کی ذرا بھی پابندی کرتی ہے، اس کا مذاق اڑا کر پردہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بال شانوں پر بکھرے ہوئے، نیم برہنہ لباس میں عورت کو لوگوں کو دعوت گناہ دینے والی خواتین معاشرے میں عزت و تکریم کا باعث قرار دی جاتی ہیں۔

جہاں کہیں بھی عوام کا لفظ آتا ہے تو اس میں تمام زندہ انسان آتے ہیں۔ لہٰذا ہر کوئی اپنے عمل کا مظاہرہ کر کے قوم کو نیک نامی یا بدنامی کے القاب عطا کرتا ہے۔ اس لیے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی اپنے اندر خاتون جنت کی صفات پیدا کریں۔ اپنے فرئض سمجھنے کی کوشش کریں۔ بچوں کی اچھی طرح تربیت و پر ورش کریں۔ تو کوئی بھی طاقت مسلم قوم کو عرش بریں پر ایک بار پھر پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم دوسروں پر ہی الزام دھرتےہیں جبکہ خود عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ اقبال نے تو اس قوم کے مستقبل کو تاریک قراد دیا تھا۔

وہ قوم نہیں لائق ہنگامئہ فردا

 جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے

اگر ہم نے اپنے لیے اور پوری قوم کے لیے اصول خداوندی اور اصول نبیؐ کو گلے لگا لیا۔ تو ہم ایک بار پھر دنیا میں مسلم قوم کا سکہ چلا سکتے ہیں۔ ہم دنیا کے امن و خوشحالی کے باعث بن سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم میں سے ہر ایک پہلے اپنی اصلاح کرے۔ پھر اپنے گھر اور محلہ کو گناہوں کے دلدل سے نکالیں۔اور پھر تمام سماج کو سنوارنے اور گل و گلزار بنانے کے لیے شبانہ روز جدوجہد کریں۔ تو ہم ہی ہوں گے جو ملت کے تقدیر کے ستارے بن کر نہ صرف دنیا بلکہ پوری کائنات کو روشنی کی ٹھنڈک و تمارت پہنچا کر عظیم کہلائے جاسکتے ہیں۔

ہمیں ہی اس اجڑی ہوئی گرداب میں ہچکولے کھاتی ہوئی بے یارو مددگار کشتی قوم اسلام کے ناخدا بن کر اسے باحفاظت پار کرنا ہے۔ ہمارے ہاتھ ہی ہماری قوم کی تعمیر و ترقی کے باعث بن سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے ان ہاتھوں سے عروسئہ قوم اسلام سجانا ہے۔ جب تک اس میں کوئی شبانہ تک باقی نہ رہے ہم آخر و دم تک اس کار عظیم میں لگے رہیں گے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہاتھ تھک کر شل نہ ہوجائیں۔ یا ہمارے بازو کٹ کر ہمیں معزور نہ کر دیا جائے۔ ہم آخری سانس تک لیلائے وطن کی حفاظت و سربلندی کے لیے مجنون حقیقی کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے عوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160