حضرت لال شہباز قلندر

Posted on at


 

ملتان کو اولیاء کرام ، اور سندھ کو صوفیاۓ کرام کی سر زمین کہا جاتا ہے . وادئ مہران کا خطہ سحون شریف اس لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے . خاص اہمیت اس لئے کہ اس سر زمین صوفیاء کا گل حضرت سید عثمان مرندی المعروف لال شاہ بعض قلندر جیسی عظیم ہستی آسودہ خاک ہے

سحون ، صوبہ سندھ کا عظیم روحانی مرکز ہے جہاں ہمہ وقت فقیروں ، عقیدت مندوں ، اور زائرین کا ڈیرا جما رہتا ہے . آپ ہرات ( افغانستان ) کے قریب قریہ مروند کے رہنے والے تھے ، مروند کو مہمند بھی کہتے ہیں . آپ کی پیدائش ٥٧٣ ھ میں ھوئی . مروند میں ہی تعلیم پائی . آپ نے ایک طویل عرصہ شیخ منصور کی صحبت اختیار کی اور حضرت بابا ابراھیم قدس سرہ کے ہاتھ پر بیعت کی . ایک سال کی ریاضتوں کے بعد شیخ نے آپ کو خرقہ خلافت عطا کیا . متعد صوفیاۓ کرام سے کسب فیض حاصل کیا جن میں سر فہرست حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر ( رحمتہ الله علیہ ) ، حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ، حضرت مخدوم جہانیاں ، جلا الدین بخاری  اور شیخ صدر الدین عارف ( رحمتہ الله علیہ ) شامل ہیں .

آپ سیر و سیاحت کرتے ہوۓ شیخ بو علی قلندر کی خدمت میں پہنچے . انہوں نے فرمایا کہ ہند میں تین سو قلندر ہیں ، بہتر ھو گا کہ آپ سندھ تشریف لے جائیں . سو ان کے مشورے پر سیوستان تشریف لے گئے.

چھ سال تک شیخ نے سیوستان اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں اسلام کا بول بالا کیا ، کائی کافر و مشرک ایمان کے نور سے منور ھو ہوۓ  اور بیشمار عصیاں شعار نیکو کار بن گئے 

 

شیخ پر عمر کے آخری حصّہ میں جذب و جد کی کیفیت طاری ھو گئی تھی ، آپ نحو و صرف اور علوم مروجہ کے ماہر تھے . شعر و سخن کا مشغلہ تھا ، عثمان تخلص کرتے تھے .

آپ نے ہر وقت قلندریہ میں رہنے کی تلقین کی اور ڈاکٹر شاعر مشرق نے بھی قلندریت میں رہنے کا مفہوم یہی بیان کیا ہے . اقبال کے نزدیک قلندریت وہ ہے کہ جس کے دل میں دنیا کے مضمرات اور مشکلات کا خوف و ہراس نہ ھو ..

حضرت لال شہباز قلندر عمر کے آخری حصّے میں سندھ کے سر سبز سحون خطّے میں تشریف لاۓ اور اور کسی شاعر نے آپ کی آمد پر تاریخ نمود آفتاب دین کے نام سے نکالی 

 

آپ کا عرس مبارک ہر سال ١٨ تا ٢٠ شعبان کو آپ کی درگاہ اہلیہ پر منایا جاتا ہے . اور ایک عالم سے لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں اور فیضیاب ھوتے ہیں . آپ نے اپنی روحانیت کے سبب ، اپنے مقام ولادت سے جاۓ وصال تک مخلوق خدا کو جو فیض یاب نفع پہنچایا ، وہ آج بھی اسی طرح بعد از وصال جاری و ساری ہے .........



About the author

160