فحاشی کا سیلاب اور قومی معاشرت

Posted on at


 

ہمارے ملک میں فحاشی کا ایک بحر بیکراں موجزن ہے جو اپنی بے رحم لہروں اور ظالم بہاؤ میں وطن عزیز پاکستان کی ثقافت و معاشرت اور تہذیب و تمدن کو ایک تنکا حقیر کی طرح بہا کر لے جارہا ہے۔ لیکن کوئی اس کے راستے میں بند باندھنے والا اور اس سیلاب کو موڑنے والا نہیں ہے۔ کبھی کبھار   تو معاشرے کے بارسوخ افراد زبانی جمع خرچ کے ذریعے اور اخبادی سرخیوں کے ذریعے بڑھتی ہوئی آبادی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن درپردہ یہی چند بارسوخ افراد ہی معاشرے میں کینسر کی طرح سرائیت کی ہوئی فحاشی میں اہم اور کلیدی کردار ادا کر کے قوم و ملک کے نیست و نابود ہونے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

یہود و نہود تو شروع دن سے اسلام کی کشتی کو ڈبونے اور دین الہیٰ کے پیرو کاروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں مصروف ہیں۔ ان کو جب اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں دوسرے محاذوں پر پسپائی ہوئی تو انھوں نے مسلمانوں کو مس لندن اور برق کلیسا کے ذریعے مفلوج کر کے ان کے ذہنوں اور دلوں میں شراب و زنا کے پودے بونے شروع کیے اور یہ جراثیم آج پھل پھول کر گر تناور درخت بن چکے ہیں۔ اور پاکستانی قوم کا بچہ بچہ فحاشی و عریانی کا ایندھن بن کر تباہی و بربادی کے دھانے پر کھڑا ہے۔

فحش ویڈیو فلمیں وڈیو کی دکانوں کو چار چاند لگانے میں ممد و معاون ثابت ہو رہی ہیں۔ خیر وڈیو فلمیں تو ایک چھپا ہوا اور پوشیدہ دھندہ ہے۔ لیکن یہ جو ہمارے سنیماؤں پر فحاشی دکھائی جارہی ہے۔ وہ تو بالکل قوم کے نوجوانوں کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے کی ایک مذموم شازش ہے۔ ہر شہر کے بڑے بڑے رئیس اور صنعت کار ان سنیماؤں کے مالکان ہیں جو ایک تیر سے دو شکار کر کے اپنی حرام کی کمائی کو دگنا کر رہے ہیں۔ اگر ایک طرف وہ دولت کے انبار لگا کر اپنے پاپی من کو تسکین دے رہے ہیں تو دوسری طرف وہ بیرونی آقاؤں کی آشیر باد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو مستقبل کے لیے بیمار اور مفلوج نسل فراہم کر رہے ہیں۔

دیدہ دلیری کی حد تو یہ ہے کہ ہمارے محافظ قوم اور پاسبان وطن پولیس ان سنیماؤں کے باہر اوقات شو کے دوران صرف اس لیے پہرہ دے ریتے ہیں کہ چند اسلام پسند اور وطن  پرست مسلمانوں کو ان سنیما گھروں سے دور رکھ سکیں۔

پاکستان میں تو شروع دن سے ہی غربت کا سکہ چل رہا ہے۔ پہلے قوم کے چند نوجوان اور بچے جوتے پالش کر کے ، اخبار بیچ کر یا خوانچہ لگا کر اپنے خاندان کی روزی روٹی کا وسیلہ بنے ہوئے تھے۔ اب یہ نوجوان دوسرے غیر شجر سایہ دار راستوں کے مسافر بن کر اپنی منزل کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ یہ نوجوان اور بچے جو دن کی مسلسل محنت کے پچاس سے سو روپے اکھٹے کر لیتے ہیں ۔ شام کو یہی پیسے ایک فحش فلم دیکھ کر سنیماؤں گھروں میں چھوڑ آتےہیں۔ اور ان کےخاندان کو اس کار خیر کے چفیل بھوکا رہنا پڑتا ہے۔

شہر کی ہر دیوار اپنے ماتھے پر فحش فلم کے پوسٹر لگا کر پاکستانی قوم کی غیرت کو للکار رہی ہے۔ مکانوں کی وہ چھت جو کبھی اپنے مکینوں کو زمانے کے تند و تیز طوفان سے بچا کر رحمت کی شب میں تر ہوتی ہوئی ٹھنڈک کا سبب بنتی تھی آجکل ڈییش انٹینا کی بڑی بڑی ٹوکریوں سے قہر خداوندی کو دعوت دے رہی ہے۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160