مرزا محمد سعید

Posted on at


 


مرزا محمد سعیدان لوگوں میں سے تھے جوخاموش کام کرتے تھے۔ آپ اتنے خاموش تھے کہ اس دور کے لوگ آپ کے علمی کارناموں سے ناواقف ہوتے تھے۔ کیونکہ مرزا صاحب شہرت سے گھبراتے تھے۔ اور آپ پلیٹ فارم پرآنا ناپسند کرتے تھے۔ آپ جو بھی کام کرتے تھے بغیر کسی صلے کے کرتے تھے۔



فرمائش کا کام کرنا آپ کو بالکل بھی پسند نہ تھا۔ مرزا محمد سعید نے سر عبدالقادر کے رسالے مغزن میں کئی مضامین لکھے تھے۔ مگر ان کی فرمائش پر نہیں بلکہ خود مرزا صاحب کا دل چاہتا تھا۔ مرزا صاحب کسی کی خوشی کے لیے نہیں لکھتے تھے اور نہ ہی پیسوں کے لیے۔اگر کوئی پیسوں کا ذکر کرتا تو مرزا صاحب چڑ جاتے تھے۔ اور ان کو منانا بہت ہی مشکل ہوتا تھا۔لاہور کے بہت سے پبلشروں مرزا محمد سے بہت سی کتابیں لکھوانی چاہیں۔ اور بہت بڑی بڑی رقموں لالچ دیا مگر مرزا صاحب نے کسی کو بھی ایک لفظ لکھ کر نہ دیا۔ مرزا صاحب نے جب اپنا پہلا ناول لکھا جس کا نام یاسمین ہے اپنے شاگرد کو دے دیا۔ اور مرزا صاحب نے اپنا دوسرا ناول خواب ہستی بھی بغیر معاوضے کے دے دیا۔


ایک لاہور کے پبلشر صاحب ناول لکھوانے کے غرض سے مرزا صاحب کے پاس آئے وہ بڑے بڑے مصنفوں کو خرید چکے تھے۔ وہ مرزا صاحب کے پاس گئے تعارف کے بعد فورا ناول لکھوانے کی فرمائش کی۔ مرزا صاحب بڑے نرم مزاج کے آدمی تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ مجھے ایک ناول کے پانچ یا دس ہنرار بھی دیں مجھے یہ پسند نہیں۔ کہ میں جو کام کر رہاہوں اسے چھوڑ دوں پانچ دس ہزار کی بات سن کر۔ پبلشر صاحب کی سیٹی گم ہو گئی۔ کیونکہ اس زمانے میں ایک اچھا ناول دوڈھائی سو روپے میں ناول لکھا جاتا تھا۔ اور پبلشر صاحب مرزا صاحب کو ایک ناول کے ایک ہزار دے رہے تھے۔ اس لیے فورا وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔


مرزا صاحب اس زمانے میں اپنی معرکتہ الآر کتاب لکھ رہے تھے ۔ جس کا نام مذہب اور باطینت ہے۔ یہ مرزا صاحب کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اگر اردو کی سو اچھی کتابیں لینی ہو تو اس میں ان دونوں کتابوں کو ضرور شامل کیا جاتا ہے۔ مرزا صاحب دہلی کے شریف خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مرزا صاحب ان پہلے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ جنہوں نے سب سے پہلے نفیس سوٹ پہنا۔ مرزا صاحب اپنی پیشن کا زیادہ حصہ کتابیں خریدنے میں گزارتے تھے۔ ان کا مشغلہ کتابوں کا مطالعہ تھا۔ افسوس ہے کہ مرزا صاحب اب اس دنیا میں نہیں ہے۔



160