صدیق و عتیق

Posted on at


صدیق و عتیق



مجمع پر سکوت طاری ہے۔ زمانے کی گردش رک چکی ہے۔ ایک عجب حال ہے ہر چہرہ رنجور ہے۔ ارپھر آنکھ پر نم ، زبانیں کنگ ہیں اور ازھان ماؤف کوئی کرے بھی تو کیا کرے۔ سوچے بھی تو کیا سوچے۔ اتنے میں لوگوں کی سماعتوں سے ایک گرج دار آواز ٹکرائی۔ خبردار اگر کسی نے یہ کہا کہ حضورﷺ رحلت فرما گئے ہیں تو ان کی گردن اڑا دی جائے گی۔  عقیدت و محبت میں ڈوبی ہوئی یہ عمر رضہ کی آواز تھی۔ آواز سن کر لوگ اور بھی بھی پریشان ہو گئے۔  آخر یہ کیسی گھڑی ہے۔ اُمت پر یہ کیسی افتاد پڑی ہے کہ کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا۔  کوئی حل نظر نہیں آ رہا اتنے میں پوری طمانیت اور سکون و اطمینان سے ایک شخص حجرہ رسولﷺ میں داخل ہوا۔ رخ انور سے چادر ہٹائی۔ فرمان الٰہی اس وقت آشکارا تھا۔ کل نفس ذائقتہ الموت


یہی شخص مجمع عام میں آیا۔ آنکھیں اشکبار، جدائی کاغمِ دامن گیر مگر پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں۔  مسجد نبویؐ میں بے شمار نفوس محو انتظار ہیں۔ ان سے آ کر یوں مخاطب ہوا ، واضح ہو کہ تم میں سے جو محمدﷺ کی عبادت کرتے تھے تو بے شک محمدﷺ تو انتقال کر گئے جو اللہ کی عبادت کرتے تھے تو بلاشبہ وہ اللہ زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہ آئے گی۔ اسکے بعد قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت کی جن کر ترجمہ یہ ہے۔


اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی بہت سے نبی گزر چکے ہیں۔ اگر ان کا انتقال ہو جائے یا وہ اللہ کی راہ میں مارے جائیں تو کیا تم اسلام سے پھر جاؤ گے؟  اور جو کوئی پھر جائے گا وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑ لے گا۔ اور اللہ شکر گزار لوگوں کو جزائے خیر دیتا ہے۔


یہ وہ شخص تھا، مزاج شناس رسول، محرم اسرار نبوت، جانشین رسول، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہ جن کی زندگی کا ہر پہلو اور ہر گوشہ نبوت کی تصدیق پر مہر ثبت ہے۔  آپ رضی اللہ کو رسالت مآب ﷺ کے بعد ثقیفہ بن ساعدہ میں مسلمانوں کا امیر مقرر کیا گیا۔



جبیر بن معظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک خاتون آپ رضی اللہ عنہ سے کچھ دریافت کرنے آئیں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ پھر آنا۔ اس پر خاتوں نے کہا کہ اگر دوبارہ آؤ تو آپ کو موجود نہ پاؤں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایسی صورت میں ابوبکر تو موجود ہوں گے۔


عنان خلافت سنبھالتے ہی آپ کو متعدد مسائل کا سامنا تھا لیکن آپ رضی اللہ  نے ان تمام معاملات و مسائل کا جس ثابت قدمی اور پامردی سے مقابلہ کیا وہ آپ رضی اللہ کی اولوالعزمی اور فراست کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک مسئلہ جیش اُسامہ رضی اللہ کی جو رحلت نبویؐ کے بعد بلا لیا گیا تھا از سر نو درستگی اور روانگی کا تھا۔  بعض اصحاب رضی اللہ کا خیال تھا  کہ اب اسے ملتوی کر دیا جائے بعض اس پروگرام کو ترک کر دینے پر مصر تھے لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ ، رسولﷺ کی منشاء کے تحت بھیجے گئے اس دستے کی اس طرح روانگی پر قائم رہے جس طرح حیات نبوی میں اسے روانہ کیا گیا تھا۔  یہاں تک کہ آپ رضی اللہ نے اپنے تیقن کا اس طرح اظہار فرمایا تھا اگر کوئی اس لشکر میں شامل نہ ہو گا تو میں خود جیش اسامہ میں جاؤ گا۔


خلافت صدیقی رضی اللہ  کی ابتداء ہی میں دو مسائل اسلامی حکومت کے لئے آزمائش بن گئے۔ جن میں سے ایک تو مد عیان نبوت کا مسئلہ تھا۔   جس کے لئے آپ رضی اللہ نے دو ٹوک  الفاظ میں یہ حکم صادر فرمایا تھا کہ آپؐ کی نبوت و رسالت کے بعد کسی فرد کا اعلان نبوت جھوٹ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ابو بکرصدیق رضی اللہ  نے اس کی بینج کنی کر کے قیامت تک کے لئے اس فتنے کا سدباب فرما دیا۔ اب کسی مشکل صورت میں یہ فتنہ امت مسملہ کے اتحاد کو پارہ پارہ نہیں کر سکتا۔



دوسرا مسلہ منکرین زکوۃ کا تھا۔ مدعیان نبوت کے علاوہ زکوۃ نہ دینے والوں کا ایک گروہ پیدا ہو گیا تھا۔  آپ رضی اللہ تعالی عنہ  نے اسلامی عبادات میں ایک اہم عبادت کے متروک ہونے اور اسلام کو کمزور کرنے کی اس شازش  کو ابتداء ہی میں بھانپ لیا اور بلا کسی روریاعت  کے اس کا بڑی سختی سے نوٹس لیا۔ یہاں تک کہ مانعین زکوۃٰ کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ تاریخ شاہد ہے کہ دو اہم فیصلے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فراست اور دوراندیشی کا بین ثبوت ہیں۔



عہد صدیقی کا ایک اہم اور زریں کارنامہ جمع و کتابت قرآن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دور مسعود ہی میں قرآن کو مرتب فرما دیا تھا۔ سورتوں کی ترتیب بھی فرما دی تھی کہ جس کے مطابق اس نماز اور بلا نماز تلاوت کیا جاتا تھا۔  لیکن ان امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اسے ایک باقاعدہ کتابی صورت دی جائے۔ چنانچہ جنگ یمامہ میں جب جب ستر کی تعداد میں حفاظ کرام شہید ہو گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے خلیفہ وقت کی توجہ اس جانب مبزول کرائی  کہ اسے کتابی صورت دی جائے ایک کمیٹی تشکیل دی گئ ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ جو خود کاتب وحی تھے اس کے نگران مقرر ہوئے اس کمیٹی کی کوششوں سے عہد صدیقی میں صحیفہ قرآن پہلی بار تحریری طور پر منصہ شہود پر آیا۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ صحیح معنوں میں رفیق رسولﷺ  تھے۔  سفر و حضر میں، جنگ و امن میں ہر موقعہ پر آپ رضی اللہ  نبیﷺ کے ہمرکاب رہے۔  دوست ایسے کہ حق ادا کر دیا کہ جس کی تصدیق خود زبان رسالت سے یوں ہوتی ہے ۔


میں نے سب کے احسانات کے بدلے چکا دیئے سوائے ابوبکر کے اور ابوبکر کے احسانات کا بدلہ اللہ خود دے گا۔


امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق نے حقوق اللہ ، حقوق العباد میں جو توازن قائم فرمایا اور امیر کی جو ذمہ داریاں بیان فرمائیں ان کا اظہار آپ کی اس تقریر سے بخوبی ہوتا ہے جو آپ رضی اللہ عنہ نے نظام حکومت سنبھالتے ہی فرمائی تھی۔



اے لوگوں، میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں۔ حالانکہ میں تم لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔  اگر میں اچھا کام کرو تو تم میری مدد کرو اگر برائی کی طرف جاؤں تو مجھے سیدھا کر دو۔  انشاءاللہ تمھارے ضعیف مرد بھی میرے نزدیک قوی ہیں۔ یہاں تک کہ میں ان کا حق دلا دوں۔  جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے اللہ اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری عام ہو جاتی ہے اللہ اسکی مصیبت بھی عام کر دیتا ہے۔  میں اللہ اور اسکے رسولﷺ کی اطاعت کروں تو تم میری اطاعت کرو۔ لیکن جب اللہ اور اسکے رسولﷺ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت فرض نہیں۔



آپ رضی اللہ عنہ کا یہ خطبہ ہر دور کے مسلمان سربراؤں کے لئے مشعل راہ کی حثییت رکھتا ہے۔  اللہ تعالیٰ ہمیں رفیق رسالت کے سیرۃ و کردار سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔  آمین


 



160