عراق اور افغانستان پارٹ ۲

Posted on at


 

آج تقریباً تمام مسلم ممالک کے عوام میں اپنے حکمرانوں کے خلاف شدید نفرت کی فضا پائی جاتی ہے۔اگر کسی ملک میں کوئی نمائشی جمہوری ڈھانچہ قائم بھی ہے تو وہاں کے عوام مطمئن نہیں ہین۔ اور جہاں مکمل آمریت اور استبدادیت ہے تو وہاں مزامحت پر تشدد شکل اختیار کر جاتی ہے۔الجزائر،مصر، شام، سعودی عرب، ایران اور پاکستان اسکے مختلف ماڈلز ہیں۔

 پہلی جنگ عظیمکے بعد عراق پر قابض ہو جانے کے بعد برطانوی حکمرانوں نے اس پر براہ راست حکمرانی کرنے کی بجاۓ فیصل کو عراق کا شاہ بنا کر اسے نام کی حد تک عراق کا حکمران بنا دیا تا کہ ملک پر بیرونی تسلط کا تاثر نہ ہو۔ امریکی حکمرانوں نے اس تکلف کی بھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔

انہوں نے اسے براہ راست پال بریمر کی حاکمیت کے تحت رکھاہوا ہے۔ اپنی مفتوحہ اور مقبوضہ حیثیت کے خلاف عراقیوں کا رد عمل اور مزاحمت ایک فطری بات ہے۔ عراق میں قومی آزادی کے لیئے حقیقی جدوجہد اب شروع ہوئی ہے۔ مزاحمت کی سطح اور حجم میں کمی بیشی ضرور ہوسکتی ہے لیکن اسے ختم کسی طور پر بھی نہیں کیا جا سکتا۔

عراق میں متعین امریکی فوج مسلسل حملوں اور اموات کے نتیجہ میں حوصلہ ہارتی جا رہی ہے۔ بڑھتے ہوۓ جانی اور مالی نقصانات کے نتیجے میں امریکی فوج جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ اور اس کیفیت میں عراقی شہریوں پر ان کے جبرو تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی طرز پر وہ علاقوں کو گھیر کر گھر گھر کی تلاشی لیتے ہین لوگوں کے گھر مسمار کرتے ہیں اور انہیں بڑی تعداد میں گرفتار کر کے جبرو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔

عراق میں تحریک مزاحمت کے مظبوط تر ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پڑوسی ممالک میں یعنی شام،ایران اور حتیٰ کہ اردن کی جانب سے اگر اسے کوئی حمایت نہ بھی مل رہی ہو تو بہر حال یہ ممالک اسکے ساتھ دشمنی کا رویہ بھی نہیں رکھتے۔



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160