مہمان کے اکرام کے طریقے

Posted on at


ایک غلط سوچ ہمارے ذہنوں میں یہ آگئی ھے۔ کہ مہمان کو کھانا یا چائے پلانا وغیرہ ضروری ھے۔ بعض اوقات اس سے میزبان اور مہمان دونوں کو تکلیف ھوتی ھے۔ حالانکہ مہمان کے اکرام کا مقصد اس کو خوش کرنا ھے۔ اور کھانے پلانے کے علاوہ بھی اس کے بہت سے طریقے ھیں۔ جن میں مہمان اور میزبان دونوں کا فائدہ ھے۔ اکرام میں کھانے پلانے کے ہی طریقے کو اختیار کرتے ھیں۔ میزبان کو بھی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ھے۔


بعض دفعہ مہمان کو چائے پینے یا کھانا کھانے کی طبیعت نہیں ھوتی۔ لیکن میزبان اس کو اپنی بے عزتی سمجھتے ھیں۔ کہ اگر مہمان کھائے پیئے بغیر چلا گیا تو کیا سوچے گا۔ اس لئے کھانے پلانے کو فرض و واجب بنا لیا ھے۔ اس سے مستورات کی صحت کو بھی نقصان ھوتا ھے۔ کہ وہ سارا دن کچن میں ہی گزار دیتی ھے۔ نہ آرام کا وقت نہ دینی کاموں کیلئے فرصت ملتی ھے۔


خندہ پیشانی سے استقبال۔


                             جب کوئی مہمان آئے تو خندہ پیشانی اور مسکراتے ھوئے اس کا استقبال کریں۔ کوئی ایسی کیفیت پیدا نہ کریں جس سے مہمان کا دل دکھے۔ بلکہ آپ کی ہر ہر ادا سے مہمان کی آمد پر خوشی کا اظہار ھونا چاہیے۔


مستند دینی کتب کا ہدیہ۔


                            حسب توفیق اپنے گھر دفتر وغیرہ میں مستند دینی کتب خرید کر رکھیں۔ اور آنے والے مہمانوں کو ہدیہ کے طور پر دیا کریں۔ کیونکہ چائے اور کھانے کا تو وقتی فائدہ ہوتا ھے۔ لیکن دینی کتاب کو جب بھی مہمان دیکھے گا۔ اس کے دل سے میزبان کے لئے دعا نکلے گی۔ اس کے سب گھر والے پڑھ سکیں گے۔ ھو سکتا ھے ان کی زندگیوں میں دینی انقلاب آجائے اور اس کا ظاہری سبب وہی مستند دینی کتاب بنے۔ جو آپ نے ہدیہ دی تھی۔ آپ کے نامہ اعمال میں کس قدر نیکیاں بلکہ نیکی کی فیکٹریاں لگ جائیں گی۔



لباس وغیرہ کا ہدیہ۔


                       اگر اللہ تعالی نے توفیق دی ھے تو مہمان مرد ھو یا عورت کوئی مناسب سوٹ یا جرسی ہدیہ کردیں اس سے عرصہ دراز تک مہمان کو فائدہ ھوتا رھے گا۔ اگر مہمان غریب اور ضرورت مند بھی ھو تو اس کا اہتمام کریں۔ کہ اپنے گھروں میں زائد از ضرورت ملبوسات میں سے پانچ چھ جوڑے ایک طرف کر لیں۔ جب ایسے غریب افراد مہمان آئیں تو انہیں وہ کپڑے اور دیگر گھریلو اشیا جو زائد  از ضرورت ھوں انہیںبطور ہدیہ کے دے دیں۔


 


اناج پھل وغیرہ کا تحفہ۔


                            زمیندار حضرات اپنی زمینوں کے اناج اور باغات کے پھل اپنے مہمانوں کو ہدیہ دے سکتے ھیں۔ اسی طرح خشک فروٹ دال چاول وغیرہ جیسی ضرورت ہدیہ دے سکتے ھیں۔ اگر ھم ٹھنڈے دل سے غور کریں تو یہ صورتیں اگرچہ ہمارے مغرب زدہ معاشرہ میں شاید معیوب لگیں میزبان اور مہمان دونوں اپنے لئے ہتک محسوس کریں گے۔ لیکن ان صورتوں مہمان اور میزبان دونوں کا فائدہ ھے۔ ضرورت اس بات کی ھے۔ کہ ھم مروجہ تکلفات اور رسم و رواج کے خول سے باہر نکلیں اور اسلام کی فطری سادہ اور آسان تعلیمات پر عمل کریں۔    




About the author

160