پاکستان کا عدالتی نظام

Posted on at


پاکستان کا عدالتی نظام




پاکستان میں دہشت گردی اور اغواء برائے تاوان ، بدعنوانیت ، ٹاگٹ کلنگ اور دیگر سنگین جرائم میں گزشتہ دہائی سے خطر ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔  المیہ یہ ہے ان جرائم پیشہ لوگوں سے نمٹنے کے لئے اسمبلیوں میں بیٹھے عوامی منتخب شدہ ارکان جن کا کام قانون سازی ہے خود قانوں کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں اور آئے دن کوئی نہ کوئی ایسی خبر پرنٹ میڈیا سے سننے میں آتی ہیں جس سے پوری قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔


 


 


اسی طرح قانون سازی کے اس قانون کے رکھوالوں کی ظالمانہ کہانیوں سے قوم بخوبی واقف ہے۔ تھانہ کہچری اور عدالتوں میں شریف لوگ اپنے جائز حقوق کی خاطر انصاف کے حصول کے لئے نہیں جا سکتے۔



قانون اپنی جگہ موجود ہے ، قانون کے رکھوالے بھی ہیں اور قانون کا نفاز کرنے کے لئے عدالتیں بھی۔ لیکن روز بر روز بڑھتے ہوئے سنگین نوعیت کے جرائم اور قانون شکن لوگوں کے پیچھے کون سے  محرکات  ہیں جس کی وجہ سے ہماری عدالیتں ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہیں۔  میڈیا کے ذریعے ہم ہر روز ایسی خبریں سنتے ہیں اتنے دہشت گرد اور عادی مجرم پکڑے گئے لیکن ان پکڑے جانے والون کا نہ ٹرائل ہوتا ہے نہ ان جرائم کے تناسب سے سخت ترین سزا کی خبر میڈیا کے ذریعے سننے  میں آتی ہے



 مصدقہ ذرائع اور روپوٹوں سے پتہ چلا ہے پچھلے چھ ماہ میں تیرا ہزار سے زائد ملزمان گرفتار ہوئے ان میں دہشت گرد بھی ہیں ، ٹارگٹ کلر بھی بینکوں میں ڈاکہ زنی اور اغواء برائے تاوان والے بھی لیکن اس سے شرم والی اور کیا بات ہو گی ان میں سے تیرا لوگوں کی سزا کی خبر میڈیا پر نہیں آئی حالانکہ یہ لوگ اعتراف جرم بھی کرتے ہیں اور ان مجرموں سے اسلحہ بھی برآمد ہو رہا ہے۔  پاکستان کی جیلوں میں اس وقت آٹھ ہزار قیدی موجود ہیں جن کو عدالت کی طرف سے سزا ہو چکی ہے لیکن اس سزاؤں پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔



ان سب چیزوں کی کچھ وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ ہماری عدالتوں کا نظام بلا ردوبدل کے تقریباً سوا سو سال پرانا انگریزی دور کا چل رہا ہے۔  یعنی 1860 کا تعزیرات پاکستان، 1898 کا ضابطہ فوجداری اور 1908 کا ضابطہ دیوانی۔  اس نظام میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور مظلوم کی داد رسی کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔  آزاد عدالتوں کے ہونے کے باوجود مقدمات کے فیصلے تاخیر کا شکار ہیں اور عدالتی فیصلے ہونے کے باوجود مجرم کیف کردار تک پہنچنے سے بچ جاتے ہیں۔  ایک پہلو اس میں یہ بھی نظر آتا ہے شاہد تعینات جج صاحبان کی تعداد موجودہ آبادی کے تناسب سے کم ہے لیکن اس حقیقت سے انحراف نہیں کہ ایک جامع اور مضبوط نظام عدل کی موجودگی میں مجرم جرم کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے اور اسے سزا کا خوف ضرور ہوتا ہے۔



 


خشحالی اور امن کا خواب اس وقت ہی پورا ہو سکتا ہے جب ملک میں ںظام عدل مضبوط اور موثر بنیادوں پر استوار ہو۔  طاقتور سے طاقتور شخض بھی جرم کا ارتکاب کر کے سزا سے بچ نکنے کا سوچ بھی نہ سکے۔


عدالتی نظام میں کمزوریاں قانوں شکن لوگوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتی ہیں اور وہ تاخیری حربے استعمال کرکے سزا سے بچ نکلنے  میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔



انصاف کے تقاضے اس وقت بھی نہیں پورے ہوتے جب ملک کا نظام حکومت بھی کمزور ہو چند دن کی جمہوریت اور پھر مارشل لاء جو ملک کے باسیوں کو انصاف کے  حصول میں رکاوٹ ڈال دیتا ہے۔ ساتھ ایک اور بات کہ آمریت اور جمہوری نظام میں ابھی تک کوئی بھی چیز بہتر نظر نہیں جس میں برملا طور پر یہ بات کہی جا سکے کہ معاشرے میں امن و خوشحالی اور عدل و انصاف کا چرچا ہے بلکہ ہمارا معاشرہ اتنا گر چکا ہے کہ سورش ، بدنظمی ، ہتھیار اٹھانے کا عمل، خود سوزی اور بغاوت جاری ہے۔ اس سے قطہ نظر آمر اور جمہوری اہلکار حکومتی تخت کے لئے اپنی اپنی باری کے لئے قرئے ڈال رہے ہیں۔



ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کا اداروں پر اعتماد بحال کیا جائے ، مظلوم کی داد رسی کے لئے عدالتوں کا نظام موثر اور مضبوط کیا جائے کیونکہ عدل و انصاف کے بغیر امن اور خوشحالی کا خواب پورا نہیں کیا جاسکتاہے ۔ اس کے علاوہ عموماً جرائم کا ارتکاب کرنے والے عناصر جاہل پائے گئے ہیں ، اس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر معاشرے میں حکومت کو حصول علم کے لئے کام کرنے کی شدید ضرورت ہے۔  علم کی روشنی سے ہی افراد میں شعور بیدار کیا جاسکتا ہے اور مثبت راویوں کو فروغ دیں کر معاشرے کا فعال  رکن بنایا جاسکتاہے۔



160