جب باپ نے یہ سنا تو اس نے سونے بیٹے سے بولا کہ تم گدھے پر بیٹھ جاؤ میں پیدل چلتا ھوں اسی طرح وہ سفر طے کرتے ہوئے وہ کھٍ دور تک گئے۔ کہ سامنے سے کھٍ بزرگ حضرات آتے دیکھائی دیے جب پاس پہنچے تہ باپ کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ کیسا ظلم بیٹا کہ بوڑھا باپ اس عمرمیں چل رھا ھے اور بیٹا مزے سے گدھے پر بیٹھا ھوا ھے ۔
جب بیٹے نے یہ سنا تو پریشان ھو گیا اور باپ سے کہنے لگا کہ آپ بیٹھ جاوء میں ویسے بھی جوان ھوں پیدل چلا جاؤ گا ۔ اب باپ گدھے پر تھا اور بیٹا پیدل ۔ اسی طرح انہوں نے مزید کھٍ راستہ طے کیا۔
جب کھٍ دور پہنچے تو چند عوتیں آتی دیکھائی دیں عورتوں نے بچے کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں کہ کیسا ظلم باپ ھے کہ بیٹا پیدل جا رھا ھے اور خو مزے سے بیٹھ کر جا رھا ھے ۔ باپ نےجب سنا تو حیران رہ گیا ۔
باپ نے کیا کہ ہم ایسا کیوں کر لیں کہ ہم دونوں گدھے پر سوار ھو جائیں ۔ اسی طرح دونوں سوار ھو کر کھٍ دور تک گئے تو پاس سے گزرتے لوگوں نے کہا کہ کتنے ظلم لوگ ھیں کہ بے چارے گرھے پر دونوں سوار ہیں انہں زرا بھی رحم نہیں آتا۔
باپ نیچے اترا اور بیٹے سے بولا ہم نے سب طریقے آزما کر دیکھ لیے سب ھی میں ہمیں تنقید کا نشانہ پنایا
گیا ۔اب کوئی اور ھی حل سوچنا ھو گا ۔
لہزا باپ نے کہا کے میرے دماغ میں ایک ترتیب ہے کہ کیونہ ہم گدھے کی ٹانگوں کوباندھ کر لکڑی سے الٹا لٹکا لیں اور کندھوں پر اٹھا لیں۔ پھر انہوں نے ایسا ھی کیا۔ اور سفر پھر سے شروع کیا راستے میں سب لوگ انہیں دیکھ کر ہسنے لگے اورباپ بیٹا چلتے چلتے ایک پل پر سے گزرے۔ گدھا گہرئی سے ڈر گیا اورہلنے لگا اسی دوران اس کی ایک ٹانگ کھل گئ اور وہ کھائی میں جا گرا۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملا کہ دنیا انسان کو کسی حال میں خوش نہیں رہنے دیتی ۔ لہزا ہمیں دنیا کی باتوں پر کان نہیں دھرنے چاہیں ۔
Thank you so much for your support:
Written by
Kamil khan
Follow me on twitter only on
https://twitter.com/Kamil10Ahmad
If you want to read my previous blogs then just click on