سیاسی جماعتیں تعلیم کے حوالے سے مختلف عمومی وعدے کرتی رہی ہیں لیکن یہ بیانات کبھی مخصوص سیاسی اقدامات کا روپ نہیں دھار سکے۔
اس بات کی توثیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور اور برسراقتدار آنے کے بعد تعلیمی تبدیلی کے لیے ان جماعتوں کی اصل راہ عمل کے درمیان بہت فرق ہوتا ہے۔ تعلیم میں سیاسی جماعتوں کی کم دلچسپی کو ظاہر کرنے والا ایک دلچسپ عنصر اس شعبے کیلیے مختص کیے گہے وساہل سے متعلق حکومتوں کے سیاسی فیصلے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں کسی حکومت نے بین الاقوامی بینچ مارک کے مطابق تعلیم کیلیے جی ڈی پی کے ۴٪ کے برابر رقم مختص نہیں کی۔ ١۹۷۲ء سے اب تک۴۲برسوں میں تعلیم پر سرکاری خرچ جی ڈی پی کی فیصد کے لحاظ سے کم ہوا ہے یا ۲١ سال تک یکساں رہا ہے۔
سیاسی وعدوں اور تعلیم کی کیلیے وساہل کی فراہمی کے درمیان ہمیشہ بڑی خلیج رہی ہے۔ تعلیم کیلیے مختص رقم کے تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ سیاسی بیانات حقاہق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ بات اس حقیقت سے بھی عیاں ہے کہ باقاعدہ اخراجات کے مقابلے میں تعلیم کے شعبے میں ترقیاتی اسکیموں کو دی جانے والی اہمیت مسلسل کم ہوہی ہے۔
ء2008-2007 سے تعلیم کے ترقیاتی بجٹ وفاقی حکومت نے تین سال اور پنجاب اور بلوچستان نے ایک ایک سال کٹوتیاں کیں۔ مزید یہ کہ ملازمین سے متعلق اخراجات کی بنا پر نان سیلری بجٹ2008-2007ء سے تین برسوں تک مسلسل کم ہوتا رہا۔ یہ صورتحال تعلیمی نظام کیلیے سنگین نتاہج کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ اداروں کی ہنگامی ضروریات مثلٲ مرمت اور مین ٹی نٹس اور آپریشنل لاگتوں کو پورا کرنے کیلیے نان سیلری بجٹ ازحد ضروری ہے۔
تعلیم میں سیاست کی اہمیت کو بھی دنیا کے صف اول کے ماہرین تعلیم اور ترقیات کیلیے کام کرنے والوں نے تسلیم کیا ہے۔ امرتیہ سین اور جین ڈریز کے الفاظ میں؛
ًاگر آفاقی بنیادی تعلیم کا ہدف صیحح وقت پر حاصل کرنا ہے تو اسے اہم سیاسی مسلہ بنانا ہو گا ً۔