ذکر الٰہی

Posted on at


                           


دینی اصطلاح میں ذکر کا مطلب ہے کہ اللہ کو یاد کرنا۔ انسان اسی چیز کو یاد کرتا ہے جس سے وہ بہت زیادہ پیار کرتا ہے۔ اور کسی بھی حالت میں اسے بھلانے کو تیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں پیدا کیا اور ان گنت نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا ہے۔ اس لیے ہمیں اسی سے ہی پیار اور محبت کرنی چاہیئے۔ کیونکہ وہ ہم سے بے حد پیار کرتا ہے اور اس پیار کی حد یہ ہے کہ جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو پیار کرتی ہے۔ اس طرح اللہ تعالی ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس کا زکر بھی کرنا چاہیئے۔



اللہ تعالی نے قرآن میں جگہ جگہ زکر کی اہمیت واضع کی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کرو گا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب ہم اللہ سے پیار کرتے ہیں تو اس کا زکر بھی کرے گے اسی طرح اللہ بھی ہمیں یاد کرے گا۔ ایک اور جگہ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا اے ایمان والو اللہ کا زکر کثرت سے کیا کرو۔ اس آیت سے بھی ذکر الہی کی اہمیت واضع ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کے زکر میں دلی سکون اور راحت ہے۔ جس کو انسان کہیں سے بھی اور کسی بھی قیمت میں نہیں خرید سکتا۔



قرآن مجید میں اس بات کی اس طرح سے وضاحت کی گئ ہے۔ جو ایمان لائے ان کے دل اللہ تعالی کے زکر سے مطمئن ہوتے ہیں۔ حضرت محمدؐ کی اس حدیث مبارکہ سے بھی ذکر الہی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت محمدؐ نے فرمایا۔ آسمان کے فرشتے اللہ کا زکر کرنے والوں کو پہنچاتے ہیں۔ ان کے گھر روشن ہوتے ہیں جیسے زمین والے چمکتے ہوئے ستاروں کو پہنچاتے ہیں۔



ایک اور حدیث مبارکہ جو زکر الہی کی اہمیت کو واضع کرتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت ابو موسٰیؑ فرماتے ہیں کہ حضرت محمدؐ نے فرمایا جو شخص اللہ کا زکر کرتے ہیں۔ اور جو اللہ کا ذکر نہیں کرتے ان کی مثال اس طرح ہے جیسے ایک زندہ ہے اور دوسرا مردہ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ذکر الہی کی توفیق دے۔ اور سب کا زیادہ سے زیادہ وقت ذکر الہی میں گزارے۔ آمین۔۔۔




160