کیا اپ نے ہے کے یہ جو ہم روز نیے نیے کپڑے پہنتے ہیں جن کی چند اقسام جو مجھے معلوم ہیں جسے کے کوٹوں کے لتٹھے کے واشنویر اس کے علاوہ کرننڈی کے لیڈر کے مکس اور ٹاویرا کے پھر لون کے شنیل کے اور جرسی وغیرہ کے جو کے سردی اور ٹھنند سے بچاؤ کے کام بھی آتے ہیں
یہ اقسام وو چند ایک ہیں جن کے نام میں جانتا ہوں اس کے علاوہ اور بہت سی اقسام ایسی بھی جن کے بارے میں میں نہیں جانتا اور شاید آپ کو بھی پتا نہ ہو لیکن ہم میں سے اس کپڑے کے بارے میں یہ نہیں سوچا کے ان کپڑوں کو اپنی اس شکل اور شیپ میں آنے کے لیے کتنی فآئیکتریز میں نہ جانے کتنے پروسسس سے ہو کے گزرنا پڑتا ہے اور پھر کہیں جا کے یہ کپڑوں کی شکل میں تیار ہوتے ہیں اور پھر ہم اسے اپنے پہننے کے لیے اپنے مرضی کے سائز میں کٹوا کر اور ٹیلر سے سلواتے ہیں اور اپنے استمال میں لے اتے ہیں
چلیں یس کے کچھ پروسسس کو مجھے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے آج میں آپ کو کچھ پروسس کے بارے میں جانکاری دیتا ہن
سب سے پہلے تو ہمارا کسان کپاس کے بیج کو بجا ای کے لیے تیار کی گئی زمین میں سید بوتا ہے ور فصل کے تیار ہونے پر جسے کپاس کہتے ہیں اس سے کاٹن کہتے ہیں کو ہر کے پودے سے چنا جاتا ہے اور فیکٹری میں آتا ہے وہاں اسے صاف کر کے اس میں سے سید کو جسے بنولہ بھی کہتے ہیں الگ الگ کیا جاتا ہے اب صآف شدہ کا تن
کو دھاگے بنانے والی فیکٹری میں دے دیا جاتا ہے جسے اورانٹیل ملل کہتے ہیں جہاں اسے دھگا بنایا کے کپڑے بنانے والی ملل میں بھیجا جاتا ہے جہاں یس دھاگے کا کپڑا بنتا ہے اور یہ کی طریقے کی مشینو سے گزر کر بنتا ہے پھر اسے پرنٹنگ پریس یناس کپڑے کو ڈ ای اور رنگ دیا جاتا ہے
اور پھر کہیں جا کے یہ مارکیٹ تک پہچتا ہے ججہاں سے ہم اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق کپڑے خرید کے لے آتے ہیں
ہے نہ کمال کا سفر ایک پودے کے پھول سے لے کے ایک صدر یا وزیر عزام یا کسی بھی غریب اور امیر کے بدن پی سجنے تک کا جرنی