پاکستانی طلبہ ساہنس پڑھنے سے کیوں بھاگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟،

Posted on at


پاکستانی طلبہ ساہنس پڑھنے سے کیوں بھاگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟،


  پاکستان کے ہر اسکول میں ساہنس پڑھاہی جاتی ہے لیکن پھر بھی بہت کم بچے ساہنسی مضامین میں شوق سے پڑھتے ہیں اور اس سے بھی کم ساہنسدان بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اکثر و بیشتر طلبہ کو یہ مضمون اس قدر خشک اور دلچسپی سے عاری معلوم ہوتا ہےکہ وہ اس سے متنفر ہو جاتے ہیں۔


 یہ نہایت دکھ کی بات ہے اس لیے کہ یہ مضمون علم انسانی، سوجھ بوجھ اور ترقی کے عروج کا سبب ہے ہمارے کچھ بہتر طلبہ ساہنس سے منسلک پیشوں میں کسی حد تک کامیاب ہوہے ہیں اور ایسے پاکستانیوں کی خاصی تعداد ہے جن کا تعلق انجنیرنگ، میڈیسن اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے ہے مگر ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے جو چوٹی کا کام کرتے ہیں۔ کیونکہ ساہنسی اصولوں پر جب تک مکمل عبور حاصل نہ کیا جاہے اس شعبہ کی سرحدوں پر کام کرنا ممکن نہیں ہے۔


 اگر پاکستان کا موازنہ بھارت سے کیا جاہے تو، سرویز سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے طلبہ ساہنس کو باعزت اور شاندار سمجھتے ہیں۔ ان کیلیے آہن سٹاہن، اسٹیون ہاکنگ، بلیک ہولز اور جینز وغیرہ مسحور کن الفاظ ہیں۔ اگرچہ بیشتر طلبہ بالآخر ً معمول ً کے پیشوں کی طرف چلے جاتے ہیں پھر بھی خاصی تعداد ساہنس سے وابستہ رہتی ہے اور ان میں بعض دنیا کے بہتر ساہنسدانوں کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور یہ ہی بھارت کی عالمی طاقت بننے کا بھی ایک اہم سبب ہے۔



یہ فرق کیوں ؟ اس سوال کا جواب بڑی حد تک پاکستان میں تحریر  کردہ ساہنس کی نصابی کتابوں کا جاہزہ لینے سے ملتا ہے۔ اگرچہ ناقص امتحانی نظام اور ساہنس کے خراب اساتزہ کو بھی مورد الزام ٹھرانا چاہیے تاہم ناقص نصابی کتابیں ایک ایسے کلچر میں خاص طور پر مضر ہوتی ہیں جہاں لکھے ہوے لفظ کو پتھر پر لکیر سمجھا جاتا ہے۔      



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160